بیک وقت انتخابات کیس: ہدایت جاری کر رہے ہیں نہ کوئی ٹائم لائن، مناسب حکمنامہ جاری کرینگے، چیف جسٹس

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک ساتھ انتخابات اور 4 اپریل کے فیصلے پر عمل درآمدکیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت مذاکرات پر مجبور نہیں کرسکتی صرف آئین پرعمل چاہتی ہے،کوئی ہدایت جاری کر رہے ہیں نہ کوئی ٹائم لائن ، عدالت مناسب حکم نامہ جاری کرےگی، برائے مہربانی آئین کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

4 اپریل کو تین رکنی بینچ نے حکومت کو 27 اپریل تک انتخابات کے لیے 21 ارب روپےکے فنڈز فراہم کرنےکی رپورٹ جمع کرانےکا حکم دیا تھا۔ الیکشن کے لیے 21 ارب روپے جاری کرنے کی تیسری مہلت بھی گزرگئی، سپریم کورٹ نے حکومت سے فنڈز جاری کرنےکی رپورٹ آج طلب کی تھی۔

آج سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ 19 اپریل کو حکومت اور اپوزیشن میں پہلا رابطہ ہوا، حکومت اور اپوزیشن میں 26 اپریل کو ملاقات پر اتفاق ہوا تھا، 25 اپریل کو ایاز صادق اور سعد رفیق کی اسد قیصر سے ملاقات ہوئی، اسد قیصر نے بتایا کہ وہ مذاکرات کے لیے با اختیار نہیں ہیں، گزشتہ روز حکومتی اتحاد کی ملاقاتیں ہوئیں، دو جماعتوں کو مذاکرات پر اعتراض تھا لیکن راستہ نکالا گیا، چیئرمین سینیٹ نےایوان بالا میں حکومت اور اپوزیشن کو خطوط لکھے ہیں، چیئرمین سینیٹ نے حکومت اور اپوزیشن سے چار چار نام مانگے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ اسد قیصر کے بعد کیا کوشش کی گئی کہ کون  مذاکرات کے لیے  بااختیار  ہے؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ منگل کو میڈیا سے معلوم ہوا کہ شاہ محمود قریشی مذاکرات کے لیے بااختیار ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ چیئرمین سینیٹ سےکس حیثیت سے رابطہ کیا گیا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سینیٹ وفاق کی علامت ہے اس لیے چیئرمین سینیٹ کو کہا گیا۔

مذاکرات  پر عدالت مجبور نہیں کرسکتی،صرف آئین پرعمل چاہتی ہے: چیف جسٹس

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 19 اپریل کو چیمبر میں آپ سے ملاقات ہوئی، ہمارے ایک ساتھی کی عدم دستیابی کے باعث 4 بجے سماعت نہیں ہوئی تھی، فاروق نائیک نےکہا تھا چیئرمین سینیٹ سہولت کاری کریں گے، چیئرمین سینیٹ حکومت کے نمائندے ہیں نہ اپوزیشن کے، حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو خود اقدام اٹھاتی، مذاکرات کرنے پر عدالت مجبور نہیں کرسکتی، عدالت صرف آئین پرعمل چاہتی ہے تاکہ تنازع کا حل نکلے، عدالت کو کوئی وضاحت نہیں چاہیے صرف حل بتائیں، چیئرمین سینٹ اجلاس بلائیں گے اس میں بھی وقت لگےگا۔

سیاست کا مستقبل سیاست دانوں کو ہی طےکرنے دیا جائے:فاروق ایچ نائیک

وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ تمام حکومتی اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پر آمادہ ہیں، سینیٹ واحد ادارہ ہے جہاں تمام جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے، چیئرمین سینیٹ کا کردار صرف سہولت فراہم کرنا ہے، مذاکرات سیاسی جماعتوں اور کمیٹیوں کو ہی کرنے ہیں، سیاسی ایشو ہے اس لیے سیاسی قائدین کو ہی مسئلہ حل کرنے دیا جائے، سیاست کا مستقبل سیاست دانوں کو ہی طےکرنے دیا جائے۔

حکومت آئین سے انحراف کرنا چاہ رہی ہے: شاہ محمود قریشی

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حکومت کے اصرار پر عدالت نے سیاسی اتفاق رائےکے لیے موقع دیا تھا، تمام جماعتوں کی سیاسی قیادت عدالت میں پیش ہوئی تھی، پی ڈی ایم میں آج بھی مذاکرات پر اتفاق رائے نہیں، عدالتی حکم کو پی ٹی آئی نے سنجیدگی سے لیا، سپریم کورٹ کا 14 مئی کا فیصلہ حتمی ہے، حکومت آئین سے انحراف کرنا چاہ رہی ہے، حکومت نے کہا تھا وہ مشاورت کے بعد تجویز دے گی لیکن یہاں کوئی تجویز نہیں آئی، عدالت نے قومی مفاد میں سیاسی جماعتوں کو موقع فراہم کیا۔

شاہ محمود قریشی نےکہا کہ تحریک انصاف سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا، پی ٹی آئی نے مجھے، فواد چوہدری اور علی ظفر کو مذاکرات کے لیے نامزد کیا تھا، اسد قیصر نے حکومت کو مجھ سے رابطہ کرنےکا کہا، آج تک مجھ سے کسی نے رابطہ نہیں کیا، چیئرمین سینیٹ نے گزشتہ روز فون پر کہا کہ وزیراعظم کے اصرار پر رابطہ کر رہا ہوں، چیئرمین سینیٹ سےکہا سپریم کورٹ میں جو تجاویز دی تھیں وہ کہاں ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے معاملے میں صبرو تحمل سے کام لینا ہوگا۔

فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کو سینیٹ نے مذاکرات پر آمادہ کیا۔

اتفاق نہ ہوا تو جیسا ہے ویسا ہی چلےگا: چیف جسٹس

چیف جسٹس نےکہا کہ عدالت کا کوئی حکم نہیں صرف تجویز ہے، قومی مفاد اور آئین کے تحفظ کے لیے اتفاق نہ ہوا تو جیسا ہے ویسا ہی چلےگا، نام دینے میں کیا سائنس ہے؟کیا حکومت نے اپنے 5 نام دیے ہیں؟

فاروق ایچ نائیک نےکہا کہ پی ٹی آئی چاہے تو 3 نام دے دے، پانچ لازمی دیں، حکومت کے نام تین 4 گھنٹے میں فائنل ہوجائیں گے۔

چیف جسٹس نےکہا کہ فاروق نائیک کو بھی مذاکرات میں رکھا جائے تاکہ معاملہ ٹھنڈا رکھا جائے۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ نے صرف سینیٹرز کے نام مانگے ہیں۔

چیف جسٹس نےکہا کہ حکومت نے نیک نیتی دکھانےکے لیےکیا اقدامات کیے ہیں؟ لگتا ہے حکومت صرف پاس پاس کھیل رہی ہے،کوئی ٹائم لائن نہیں دے رہے، آج کا آرڈر جاری کریں گے،ہم نہ کوئی ہدایت جاری کر رہے ہیں، نہ کوئی ٹائم لائن ، عدالت مناسب حکم نامہ جاری کرےگی، برائے مہربانی آئین کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں۔

اس کے بعد سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی گئی۔

مزید خبریں :