بلاگ
Time 15 مئی ، 2023

چور کو پڑ گئے مور

یہ پرانے زمانے کی کہانی ہے لیکن کور کمانڈر لاہور کے گھر پر تحریک انصاف کے حملے اور وہاں سے ایک مور کی چوری نے یہ کہانی مجھے پھر سے یاد دلائی ہے۔ ایک دفعہ کسی چور نے ایک ظالم کوتوال کےگھر سے قیمتی ہار چور ی کیا اور اپنے گھر میں زمین کھود کر چھپا دیا۔ چور نے اپنے گھر میں ایک مور پال رکھا تھا۔

 مور چھوٹے موٹے سانپ کھانے کا شوقین ہوتا ہے۔ چور کے پالتو مور نے زمین کھودی اور ہار کو سانپ سمجھ کر کھا گیا۔ چور نے بہت کوشش کی کہ مور چوری شدہ ہار کو واپس اگل دے لیکن کامیاب نہ ہوا۔یہ واردات چھپی نہ رہ سکی اور چور گرفتار ہوگیا۔ کوتوال نے چور سے پوچھا کہ میرا ہار کہاں ہے چور نے بتایا کہ ہار کو مورکھا گیا۔ یہ سن کر کوتوال نے کہا کہ ’’چور کو پڑ گیا مور‘‘ بعد ازاں کوتوال نے مور کا پیٹ چاک کیا اور اپنا ہار برآمد کر لیا لیکن ’’چوروں کو پڑ گئے مور‘‘ ایک محاورہ بن گیا جو آج کل تحریک انصاف کے حلقوں میں بڑا پاپولر ہے۔ 

تحریک انصاف کے جس کارکن نے کور کمانڈر لاہور کے گھر سے مور چوری کیا اس سے موقع پر موجود وائس آف امریکہ کے نمائندے نے پوچھا کہ یہ مور آپ کیوں لے جا رہے ہیں؟ تحریک انصاف کے ٹائیگر نے جواب میں کہا کہ یہ عوام کا لوٹا ہوا مال ہے جو ہم واپس لے جا رہے ہیں۔ 

موقع پر موجود ایک انگلش سپیکنگ آنٹی نے صحافیوں کو بڑے فخر سے بتایا کہ وہ کور کمانڈر کے کچن کی ریفریجریٹر سے سٹرابری چرا کر لائی ہے اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ مل کر خوب انجوائے کر رہی ہے۔ تحریک انصاف والوں کو محاورہ تو یاد رہا لیکن وہ اس محاورے کا پس منظر بالکل نہیں جانتے۔ وہ ایک مور کو لوٹ کا مال قرار دے رہے ہیں لیکن یہ بھول رہے ہیں کہ 9 مئی 2023ء کو انہوں نے بھی اس پالتو مور کا کردار ادا کیا جسے ایک چور نے پال ر کھا تھا۔ میرا اشارہ اس چور کی طرف نہیں جس نے توشہ خانہ سے چوری کی۔

 توشہ خانہ سے بھی کئی ہار اور گھڑیاں چوری ہوئیں اور کئی مور انہیں سانپ سمجھ کر نگل گئے۔ میرا اشارہ ان ریٹائرڈ محبان وطن کی طرف ہے جو کبھی اپنی سیاسی سرکس کے لئے شیر پالتے ہیں اور جب شیر بغاوت کر دیتا ہے تو پھر مور پال لیتے ہیں۔ ان ریٹائرڈ محبان وطن کے ادارے کی عزت کسی قیمتی ہار سے کم نہ تھی لیکن افسوس کہ ان کا اپنا ہی پالا ہوا مور اس عزت کو نگل گیا۔ 9 مئی کے واقعات جن محبان وطن کے ’’فیض‘‘ کا نتیجہ ہیں انہیں آج نہیں تو کل اپنے قومی جرائم کا حساب دینا پڑے گا۔ کوتوال نے صرف مور کا پیٹ چاک کرکے اپنا چوری شدہ ہار برآمد نہیں کرنا بلکہ مور پالنے والے چوروں کو بھی ان کے جرائم کی سزا دلوانی ہے۔ 

مسئلہ یہ ہے کہ آج کل کوتوال کو عدالتوں پر بھی اعتماد نہیں کیونکہ عدالتوں میں بیٹھے ہوئے کچھ قاضی قانون کے مطابق نہیں بلکہ اپنی بیگمات کی فرمائش پر فیصلے کرتے ہیں۔ کیا عمران خان نے قاضی کی مدد سے کوتوال اور اس کے اوپر بیٹھی ہوئی حکومت کو مکمل طور پر روند ڈالا ہے؟ کیا عمران خان کے دوبارہ حاکم بننے کی راہ میں اب کوئی رکاوٹ نہیں رہی؟ یہ لڑائی اتنی سادہ نہیں جتنی نظر آ رہی ہے۔ یہ لڑائی پاکستان کی سلامتی اور بقا کے لئے خطرہ بن رہی ہے۔ 

اس لڑائی کی وجوہات کو سمجھنا اور ان وجوہات کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ ان وجوہات کو ختم کرنے کے لئے ہمیں کچھ تلخ حقائق کو تسلیم کرنا ہوگا لیکن افسوس کہ آج کے پاکستان میں عمران خان، نواز شریف، شہباز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان سے لے کر جسٹس عمر عطا بندیال تک کوئی بھی سچ سننے اور کہنے کے لئے تیار نہیں۔ 9 مئی کے واقعات دراصل ہماری سیاست میں فوج اور آئی ایس آئی کی مسلسل مداخلت کانتیجہ ہیں۔ پارلیمینٹ اور فوج کی لڑائی میں اکثر عدلیہ نے فوج کا ساتھ دیا اور فوج نے پارلیمینٹ کو زیر کرنےمیں کامیابی حاصل کی۔

2007ء کی وکلا تحریک میں سیاسی جماعتوں نے عدلیہ کا ساتھ دیا اور عدلیہ نے فوج کے خلاف بھر پور مزاحمت کی۔ جنرل پرویز مشرف کی طرف سے معطل کئے گئے چیف جسٹس اور ججوں کی بحالی کے بعد عدلیہ بھی پاکستان کی سیاست میں اسٹیک ہولڈر بن گئی۔ عدلیہ نے ایک دفعہ پھر خفیہ اداروں کے ساتھ ملی بھگت کرکے پارلیمینٹ کے اختیارات میں مداخلت شروع کردی۔ سیاسی مقدمات میں منتخب وزرائے اعظم کو نااہل قرار دینے کے واقعات کاتعلق قانون کی بالادستی سے نہیں بلکہ کچھ ججوں کے سیاسی ایجنڈے سے تھا۔ یہ ایجنڈا اس وقت سامنے آیا جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ایک سیاسی جماعت بنا کر پاکستان میں صدارتی نظام واپس لانے کا نعرہ لگایا۔ یہ نعرہ افتخار محمد چودھری کا نہیں تھا۔

 یہ وہ دیرینہ خواہش ہے جس کا اظہار ایک دفعہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا نے خود میرے سامنے کیا۔ وہ پاکستان میں صدارتی نظام کے نفاذ کیلئے میری مدد حاصل کرنے کے خواہاں تھے لیکن میرے گستاخانہ انکار پر سیخ پا ہوگئے اور اس انکار کے سنگین نتائج میں نے بار بار بھگتے۔ 2018ء کے الیکشن میں دھونس اور دھاندلی کے ذریعے عمران خان کو اقتدار میں لانے کا اصل مقصد پاکستان کو صدارتی نظام کی طرف دھکیلنا تھا اور اسی لئے جنرل قمر جاوید باجوہ بار بار آئین میں اٹھارہویں ترمیم کو شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات سے زیادہ خطرناک قرار دیتے رہے۔ 

افسوس کہ اس جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دلوانے میں تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پارلیمانی جمہوریت کے دشمنوں کی سہولت کار بن گئیں۔ اسی پر بس نہیں ہوا بلکہ 2022ء میں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد بھی جنرل باجوہ کے حکم پر ہائی کورٹ کے جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ میں لانے کے لئے مسلم لیگ (ن) پھر سے باجوہ کی سہولت کار بن گئی۔ مسلم لیگ (ن) جنرل باجوہ کی سہولت کاری نہ کرتی تو آج حالات مختلف ہوتے۔ آج مسلم لیگ (ن) آرمی چیف اور تحریک انصاف چیف جسٹس کی ترجمان بنی ہوئی ہے۔ عمران خان نے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے ریلیف لینے کے بعد آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خلاف بیان دے کر سیاسی لڑائی کو اداروں کی لڑائی میں تبدیل کردیا ہے۔ کور کمانڈر لاہور کے گھر پر حملے کے بعد حکمران اتحاد نے سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کردیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی لڑائی میں اداروں کا تقدس اور انسانی حقوق دونوں پامال ہو رہے ہیں۔ 

مجھے اس تخریب میں بھی تعمیر کا پہلو نظر آ رہا ہے۔ عوام کی اکثریت کو سمجھ آگئی ہے کہ ہمارے اکثر مسائل کی وجہ فوج اور عدلیہ کی سیاست میں مداخلت ہے اور آج ہماری بڑی سیاسی جماعتیں انہی دو اداروں کے کندھے استعمال کرکے اپنے مفادات کا تحفظ کر رہی ہیں۔ ان اداروں کی سیاست میں مداخلت بند ہونی چاہئے۔ مور کے پیٹ سے صرف ہار کی برآمدگی کافی نہیں بلکہ چور کا احتساب بھی ضروری ہے جس نے مور پالا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔