17 مئی ، 2023
ٹائی ٹینک کو پیش آنے والے حادثے پر لاتعداد فلمیں، کتابیں اور مضامین لکھے گئے اور دنیا بھر میں لوگ اس حادثے کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہیں (جیمز کیمرون کی فلم کی مہربانی سے)مگر پھر بھی اس جہاز اور مسافروں کے بارے میں متعدد راز ایسے ہیں، جن کے جواب اب بھی معلوم نہیں۔
ایسے ہی کچھ مناظر سامنے آئے ہیں جس میں دنیا کے مشہور ترین بحری ملبے کو اس طرح دکھایا گیا جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔
بحر اوقیانوس کی 3800 میٹر گہرائی میں موجود ٹائی ٹینک کا پہلی بار فل سائز ڈیجیٹل اسکین کیا گیا ہے اور اس کے لیے ڈیپ سی میپنگ ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا۔
اس سے پورے جہاز کی منفرد 3 ڈی تصاویر تیار ہوئیں اور ایسا لگتا ہے کہ اردگرد پانی موجود ہی نہیں۔
ماہرین کو توقع ہے کہ اس ڈیجیٹل اسکین سے اس بات پر روشنی ڈالنے میں مدد ملے گی آخر جہاز کے ساتھ ایسا کیا ہوا تھا جس کے باعث وہ ڈوب گیا۔
یہ جہاز اپریل 1912 میں اپنے اولین سفر پر برطانیہ سے امریکا جاتے ہوئے برفانی تودے سے ٹکرا کر ڈوبا تھا جس کے نتیجے میں ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
ایک ماہر پارکس اسٹیفن سن نے بتایا کہ ابھی بھی اس حادثے کے حوالے سے ایسے متعدد سوالات موجود ہیں جن کے جواب معلوم نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ 3 ڈی ماڈل ٹائی ٹینک کی قیاسات سے ہٹ کر شواہد پر مبنی اصل کہانی سامنے لانے کی جانب پہلا قدم ہے۔
ڈوبنے کے بعد اس جہاز کا ملبہ بھی ایک معمہ بن گیا تھا اور 7 دہائیوں سے زائد عرصے بعد 1985 میں اسے دریافت کیا گیا تھا۔
مگر یہ جہاز اتنا بڑا ہے کہ کیمرے اس کی غیر واضح تصاویر ہی کھینچ پاتے ہیں اور پورے ملبے کو تو دکھانا ممکن ہی نہیں۔
مگر نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے پورے ملبے کو اسکین کرکے اس کا واضح نظارہ دکھایا گیا۔
یہ جہاز 2 حصوں میں تقسیم ہوکر سمندر کی تہہ میں موجود ہے۔
2022 کے موسم گرما میں ایک ڈیپ سی میپنگ کمپنی Magellan Ltd نے اس پراجیکٹ پر کام شروع کیا تھا۔
اس مقصد کے لیے آبدوزوں کی مدد لی گئی جن کو ایک خصوصی جہاز میں سوار ماہرین نے کنٹرول کیا اور 200 گھنٹوں سے زائد وقت تک ملبے کی لمبائی اور چوڑائی کا سروے کیا گیا۔
ماہرین نے جہاز کی ہر زاویے سے 7 لاکھ سے زیادہ تصاویر لیں اور پھر ان کی مدد سے 3 ڈی ماڈل تیار کیا۔
ماہرین نے بتایا کہ لگ بھگ 4 ہزار میٹر گہرائی میں یہ کام کرنا ایک چیلنج سے کم نہیں تھا جبکہ ہمیں کسی چیز کو چھونے کی اجازت بھی نہیں تھی کیونکہ اس سے ملبے کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک چیلنج یہ بھی تھا کہ جہاز کے ہر اسکوائر سینٹی میٹر کا نقشہ تیار کیا جائے۔
اسکین میں جہاز کے حجم کے ساتھ ساتھ اس کی باریک تفصیلات جیسے پروپلر میں موجود سیریل نمبر تک کو دکھایا گیا۔
جہاز کے اگلے حصے پر اب زنگ چڑھ چکا ہے مگر 111 سال بعد بھی اسے شناخت کیا جا سکتا ہے۔
پارکس اسٹیفن سن برسوں سے ٹائی ٹینک پر تحقیق کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ ان 3 ڈی تصاویر کو دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ان اسکینز کی جانچ پڑتال سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ اپریل 1912 کی رات کو جہاز کے ساتھ کیا ہوا تھا، جیسے یہ معلوم ہوگا کہ جہاز کا کونسا حصہ برفانی تودے سے ٹکرایا۔
ایک صدی سے زائد عرصے سے سمندر کی تہہ میں موجود اس ملبے کو کافی نقصان پہنچ چکا ہے، جرثومے اس کے مختلف حصوں کو چاٹ چکے ہیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اس بحری حادثے کو مکمل طور پر سمجھنے کا وقت بہت کم رہ گیا ہے، مگر نئے اسکینز سے یہ ملبہ تاریخ میں ہمیشہ موجود رہے گا اور ماہرین اس کے رازوں سے پردہ اٹھا سکیں گے۔