پروجیکٹ عمران خان کے نئے پاسبان

بلاشبہ سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹتے رہنا، کارِدانش نہیں لیکن ستم یہ ہے کہ لکیر بھی ہمیں سانپ ہی کی طرح پیہم ڈنک مارے جارہی ہے۔ اس کے ہر پیچ وخم سے زہریلی آبشار والی پھنکاریں اٹھ رہی ہیں اور’’ پروجیکٹ عمران خان ‘‘ محروم ِاقتدار ہوکر بھی آکاس بیل بنا ہوا ہے۔

 دس بارہ برس پہلے ’’طفلانِ خود معاملہ‘‘ نے کھیل ہی کھیل میں جس منصوبے کی نیو ڈالی تھی وہ آج سرطان کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ آج فوج بطور ادارہ اس بے ثمر پروجیکٹ سے کنارہ کش ہوچکی لیکن عدلیہ کے کچھ دل پھینک عناصر آج بھی ستر سالہ محبوبہ کے شکن آلود چہرے میں عارض و رُخسار کی لہک مہک دیکھ رہے ہیں۔ مقدمے کی نوعیت اور جرم کی شدت دیکھے بغیر ’’گُڈ ٹو سی یو‘‘ کہتے ہوئے زمان و مکان کی حدود سے ماوریٰ ضمانتیں نچھاور کی جارہی ہیں۔ اُدھر عالمی استعمار بھی سینہ تان کر سامنے آگیا ہے، جو کسی نہ کسی انداز میں اس پروجیکٹ کا شراکت دار ہے۔

 اندرونِ ملک پروجیکٹ عمران خان، آتش مزاج نونہالانِ بے راہ وسمت، چند قاضِیانِ انصاف پرور اور تھوڑے سے مبلغّین ابلاغیات تک محدود ہوچکا ہے لیکن جانے کیوں امریکہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہیں۔ امریکی لے پالک اور مُرغِ دست آموز زلمے خلیل زاد کے بیانات دیکھیں۔ ایک ایک لفظ خان صاحب سے والہانہ محبت کے شیرے اور پاک فوج سے نفرت کے ملغوبے میں لتھڑا ہوا ہے۔ 

کیا زلمے خلیل زاد، جو ہمیشہ ’’ہِز ماسٹرز وائس‘‘ والے کالے توے کی طرح بجتا رہا، یہ سب کچھ اپنے طور پر کررہا ہے؟ کیا ماضی میں کبھی اُس نے تنخواہ دار امریکی کارندے سے ہٹ کر کوئی مشن اپنایا؟ بے ننگ ونام اور مشکوک کردار کی حامل سنتھیا رچی کیوں پی۔ٹی۔آئی کی ترجمان بن کر ہماری مسلح افواج کو کوسنے دے رہی ہے؟ امریکی ارکانِ کانگریس اور سینیٹ کے یَک رُخے بیانات کی برکھا کیوں تھمنے میں نہیں آرہی ؟ کیا وجہ ہے کہ آئی۔ایم۔ایف ہماری رگوں کا آخری قطرۂِ خوں نچوڑ لینے کے بعد بھی، بالا خانے کی شاطر مزاج زنِ بازار کی طرح نت نئی شرائط عائد کئے جارہا ہے اور ہلکی سی چھَب بھی نہیں دکھا رہا؟ امریکی ادارے ہر روز ہمارے دیوالیہ ہوجانے کی خبریں کیوں دے رہے ہیں؟ امریکی سفارت کاروں کی تحریکِ انصاف کے عہدیداروں سے ملاقاتوں کا موضوع کیا ہوتا ہے؟

ان سارے سوالوں کا جواب ایک ہی ہے۔ ’’پروجیکٹ عمران خان‘‘ آج بھی اُن قوتوں کی واحداُ مید ہے جو پاکستان کو بے دست وپا دیکھنا چاہتی ہیں۔ وجوہات واضح ہیں۔ اس پروجیکٹ نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی چین کو آنکھیں دکھانا شروع کردی تھیں۔ 2014کے دھرنوں میں عمران خان نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری لانے والے چینی صدر کا دورہ موخر کرایا۔ اقتدار میں آئے تو سی پیک کا دفتر لپیٹ دیا جوامریکہ اور بھارت سمیت تمام چین مخالف ممالک کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ ہمارے بدخواہوں کے دلوں میں عمران خان کا عہدِحکمرانی اِس لئے بھی لالہ وگُل کھلاتا رہا کہ پاکستان مسلسل زوال کی پستیوں میں لڑھکتا رہا۔ معیشت برباد ہوتی رہی۔ کرپشن پھولتی پھلتی رہی۔ دہشت گردی سراٹھاتی رہی۔ بھارت کو شہہ ملتی رہی۔ اُس نے مقبوضہ جموں وکشمیر کو ضم کرلیا ۔ خان صاحب نے کشمیر ہائی وے کی تختی اتار کر سری نگر ہائی وے کی تختی لگائی اور مطمئن ہوگئے۔ ہمارے بدخواہوں کو ایسا ہی پاکستان چاہئے اور ایسا ہی وزیراعظم ۔

موجودہ حکومت متلاطم پانیوں میں گھری کشتی کو سنبھال رہی ہے۔ اس نے چین، روس اور ایران سے رابطوں میں نئی گرم جوشی پیدا کی ہے اور معیشت کی استواری کے لئے متبادل راہیں تراش رہی ہے۔ یہ سب کچھ بدخواہوں کے لئے قابل قبول نہیں۔ وہ ہم پر دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں۔ ہمیں منقسم اور منتشر رکھنا چاہتے ہیں۔ فوج کے قلعے میں دراڑیں ڈالنا چاہتے ہیں۔ 

ہمیں شام، لیبیا، سوڈان، افغانستان، روانڈابنانا چاہتے ہیں۔ طوائف الملوکی اور خانہ جنگی کو اس انتہا پر پہنچا دینا چاہتے ہیں کہ خدانخواستہ، ان کے مکروہ ہاتھ ہمارے ایٹمی اثاثوں تک پہنچ جائیں۔ یہ ہیں وہ اہداف جن کیلئے ’’پروجیکٹ عمران خان‘‘ کو کسی نہ کسی طور زندہ رکھنا ضروری ہے۔ اسلئے نہیں کہ عمران خان کو پھر سے اقتدار میں لایاجائے، اس لئے کہ یہ آتش فشاں مسلسل دہکتا اور آگ اگلتا رہے۔ مسلسل فوج پر برہنہ حملے کرتا رہے۔ مسلسل انتشار اور طوائف الملوکی کو ہوا دیتا اور مسلسل پاکستان کو تاریک راہوں کی طرف دھکیلتا رہے۔

عدمِ اعتماد کا بگل بجا تو عمران خان نے امریکہ کو نشانے پہ دھرلیا۔ اُسے ’’رجیم چینج‘‘ منصوبے کا سرغنہ قرار دیا۔ اس کے باوجود امریکیوں کا دل کھٹّا نہ ہوا کیونکہ عمران خان اُن کے مطلوبہ پاکستان کے لئے انتہائی کارآمد پرزہ تھا۔ جلد ہی خان صاحب کو بھی اندازہ ہوگیا کہ اُن کی خانہ خرابی کو کہاں اماں ملے گی۔ سو اُنہوں نے ایک سے زیادہ لابنگ کمپنیوں کی خدمات خریدیں۔ رابطے بڑھائے۔ مشترکہ اہداف طے کئے۔ اور اب بلی پوری طرح تھیلے سے باہر آچکی ہے۔ امریکی کانگریس کی خاتون رُکن سے گفتگو کرتے ہوئے کس لجاجت سے وہ اپنی سرپرستی کی التجا کر رہے ہیں؟ کس بے دردی سے پاکستان پر تازیانے برسانے کا تقاضا کررہے ہیں؟ کس حیا باختگی سے افواجِ پاکستان کو مطعون کررہے ہیں؟

اِدھر نہ جانے عزم وارادہ کی ناپختگی ہے یا اہلیت کا فقدان کہ 9مئی کو لگ بھگ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود نہ کسی پہ تاخت وتاراج کا ٹھوس مقدمہ بنا، نہ کوئی عدالت لگی، نہ کسی کو کٹہرے میں لایاگیا۔ ایسے معاملات میں تاخیر ہمیشہ مجرم کے حق میں جاتی ہے۔ 2011کے لندن فسادات زیادہ دور کی بات نہیں۔ یہ محض لوٹ مار کے واقعات تھے جو پولیس کے ہاتھوں ایک شخص کے قتل کے بعد شروع ہوئے۔ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے نہ اپوزیشن کی سُنی ، نہ انسانی حقوق کی دہائی دینے والے اداروں کی ، نہ میڈیاکی۔ پہلا حکم یہ جاری کیا کہ متعلقہ عدالتیں چوبیس گھنٹے کھلی رہیں گی۔ 

سی سی کیمروں اور موبائل فونز کے ذریعے چند گھنٹوں میں تین ہزار سے زائد افراد گرفت میں آگئے، سمری کورٹس کو کہاگیا کہ اِن افراد کو عدل کے روایتی پیمانوں پر نہ جانچا جائے۔ نہ کوئی جے ۔آئی۔ٹی بنی ، نہ کوئی کمیشن، صرف حکومت اور متعلقہ اداروں کا عزم بروئے کار آیا۔ سو چند دنوں کے اندر اندر تمام مجرم کیفرِکردار کو پہنچا دئیے گئے۔ اِن میں کھڑکی کا شیشہ توڑنے والی گیارہ سالہ بچی بھی تھی ، شراب کی ایک بوتل اٹھا کر بھاگنے والا بارہ سالہ لڑکا بھی اور چُرائے گئے دو جانگھیے تحفہ لینے والی خاتون بھی اور اِدھر ہماری ساری تگ ودو تقریروں، پریس کانفرنسوں، بیانوں ، اعلامیوںاور اُن کی توثیق ِ مزید کے درمیان آنکھ مچولی کھیل رہی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔