24 مئی ، 2023
وزیر خارجہ و پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ 9 مئی کے پُرتشدد احتجاج نے صورتحال بدل دی ہے، ریاست پر حملہ سرخ لکیر تھی جسے عبور کیا گیا، اب قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
ترک میڈیا کو انٹرویو میں بلاول کا کہنا تھاکہ مقبوضہ کشمیرمیں جی 20 اجلاس عالمی سطح پربھارت کے تکبر کا ایک اور مظاہرہ ہے، 2019 میں بھارت نےمقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرکےتکبرکامظاہرہ کیا، سری نگر میں جی 20 اجلاس سے بھارت نے پیغام دیاکہ اس کیلئے عالمی قوانین غیرمتعلقہ ہیں اور سلامتی کونسل کی قراردادیں غیرمتعلقہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چین نے اجلاس میں شرکت نہ کرکے بین الاقوامی قوانین سے اصولی وابستگی کا مظاہرہ کیا، چین کا فیصلہ سلامتی کونسل کی قراردادوں سے وابستگی کوظاہرکرتاہے، چین کا سری نگر میں اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ ذمہ دار سپرپاور کے اقدامات ہیں۔
ترکیہ کے حوالے سے بلاول کا کہنا تھاکہ پاکستان اور ترکیہ کا رشتہ دو ریاستوں کا نہیں دو بھائیوں جیسا ہے، پاکستان اور ترکیہ آزمائش کی ہرگھڑی میں ایک دوسرےکےساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔
افغانستان کے حوالے سے وزیرخارجہ کا کہنا تھاکہ پاکستان اور افغانستان کے لوگ کئی دہائیوں کی جنگ سےتنگ آچکےہیں، مستحکم اور خوشحال افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے، پاکستان افغانستان کے تنازعات میں ایک دہشت گردی کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ سقوط کابل کے بعد سے پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کے دہشتگرد حملے بڑھے، درخواست ہے افغانستان اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف بطور لانچنگ پیڈاستعمال نہ ہونے دے، افغان عبوری حکومت کے ساتھ روابط جاری رکھنے سے افغانستان میں اچھی پیش رفت ہوگی۔
ان کا کہنا تھاکہ افغانستان میں عبوری حکومت کوصلاحیتوں میں اضافےکی ضرورت ہے، افغان عبوری حکومت کےپاس انسداددہشت گردی فورس،بارڈر مینجمنٹ فورس نہیں ہے، افغانستان میں دہشتگردوں کونشانہ بنانے کا وزیردفاع کا بیان مزید سفارتی زبان میں ہوسکتاتھا، بین الاقوامی تسلیم شدہ قانون کےتحت پاکستان کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول کا کہنا تھاکہ پاکستان میں جمہوری جدوجہد کی طویل تاریخ ہے، ہم نے اپنی حکمرانی کا بڑا حصہ آمریت کے تحت برداشت کیا ہے، ہماری متحدہ حکومت نے برسراقتدار آکر اپوزیشن کے ساتھ گفتگو میں روایتی مؤقف اختیارکیا، ہم عمران خان کے دوراقتدارکی طرح سیاسی انتقامی کارروائیاں نہیں کرنا چاہتے تھے اور ہم پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز پر توجہ دینا چاہتے تھے لیکن 9 مئی کے پُرتشدد احتجاج نے صورتحال بدل دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات اور یادگار شہدا کو نقصان پہنچایا گیا، 9 مئی کے بعد تمام سیاسی جماعتیں ریاست کی رٹ قائم کرنے پر متفق ہیں، ریاست پرحملہ سرخ لکیرتھی جسے عبورکرلیاگیا، اب قانون کا اپناراستہ اختیار کرنا چاہیے، پی ٹی آئی کو اپنے 30 سالہ سیاسی دور میں اپنے اعمال کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
پی پی چیئرمین کا کہنا تھاکہ ہم نے باربارسیاسی بات چیت کی کوشش کی، ایک تاریخ پر انتخابات کےلیے اتفاق بھی ہوگیاتھا، ایک تاریخ پر انتخابات کے لیے اتفاق کےبعد بس یہ طے کرنا تھا کہ وہ تاریخ کیاہوگی، عمران خان ضدی ہیں، وہ قومی مفادات اور ذاتی مفادات میں فرق نہیں کرسکتے، عمران خان کی ضد کے سنگین نتائج حملے کیلئے اکسائے جانے والے غریب کارکنوں کے سامنے آئے۔
انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہوں گا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت کا کوئی امکان نہیں ہے، ریاست کےخلاف ہتھیار اٹھانے والوں کی طرف سے مذمت اور معافی مانگنے تک بات نہیں ہوسکتی، پی ٹی آئی کے اندر عسکریت پسندقوتوں سے نہیں سیاسی قوتوں سے بات چیت ہوگی۔