کشمیر لٹریچر فیسٹیول، چند تاثرات

سیاست اور صحافت کا مقصد انسانوں کو جوڑنا ہے ، پاکستان میں چونکہ یہ دونوں بے ادب (یعنی ادب اور فنون لطیفہ سے محروم) ہوگئے ہیں اس لئے وہ جوڑنے کے بجائے توڑنے کا کام کررہے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد نفرتوں کو مٹانا اور محبتوں کو پھیلانا ہے لیکن دونوں مذکورہ وجوہات کی وجہ سے نفرتوں کو بڑھاوا دے رہے ہیں ۔

 ان حالات میں جن چند اشخاص نے لٹریچر اور فنون لطیفہ کو زندہ کرنے کا مشن اپنی زندگی کا مقصد بنا رکھا ہے ان میں آرٹس کونسل کراچی کے صدر سید احمد شاہ سرفہرست ہیں۔وہ دیوانگی کی حد تک لٹریچر ، فنون لطیفہ اور اہل فن و اہل قلم سے محبت کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ لٹریچر فیسٹیول کو کراچی سے نکال کر وہ لاہور اور پشاور تو کیا گوادر اور آزاد جموں کشمیر کے صدر مقام مظفر آباد تک لے گئے ۔ آگے وہ گلگت بلتستان اور بہاولپور وغیرہ لے جانے کا ارادہ کئے ہوئےہیں۔ میں لاہورکے لٹریچر فیسٹیول سمیت متعدد ایسے پروگراموں میں شرکت کرچکا ہوں لیکن مظفر آباد میں منعقدہ کشمیر لٹریچر فیسٹیول کئی حوالوں سے یادگار اور منفرد تھا۔

جس قدرسرزمین کشمیر خوبصورت ہے اسی طرح اہل کشمیر بھی خوبصورت اور خوب سیرت ہیں لیکن گزشتہ 75سال میں اس قوم نے جتنے غم سہے ہیں شاید ہی کسی قوم نے سہے ہوں ۔ سات دہائیوں سے وہ قربانیاں دے رہے ہیں۔ 75 سال سے خاندان منقسم ہیں۔ ان کی جدوجہد آزادی یوں منفرد ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے باسی وہاں خون دے کر قربانیاں دے رہے ہیں اور آزاد جموں وکشمیرکے باسی وہاں اپنوں کے خون کو بہتا دیکھتے ہیں تو ان کے دل خون کے آنسو روتے ہیں۔یہ جدوجہد یوں بھی منفرد ہے کہ سات عشروں سے جاری ہے لیکن آر پار کشمیریوں نے ہمت نہیں ہاری ۔ یوں بھی منفرد ہے کہ اس میں مردوں کے شانہ بشانہ خواتین بھی شریک ہیں۔ سیاست کے ذریعے بھی کوشش کی اور بندوق اٹھا کر بھی قربانیاں دیں ۔جیلیں کاٹیں اور کاٹ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود آزادی کی نعمت نصیب نہ ہوئی تاہم ان کے عزم میں رتی بھر کمی نہیں آئی ۔

کچھ حوالوں سے آزاد جموں و کشمیر کے باسی اور بالخصوص نوجوان نسل زیادہ دکھ برداشت کررہی ہے ۔ انہیں ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کے ہاتھوں اپنوں کے خون کے بہنے ، اپنی عزیز مائوں بہنوں کی عزتوں کی پامالی اور مقبوضہ کشمیر کے ایک بڑے عقوبت خانے میں تبدیل ہونے کا دکھ ہے تو دوسری طرف وہ اپنی آزادی کیلئے پاکستانی سرکار اور سیاسی لیڈروں کے کردار سے بھی مطمئن نہیں ۔ آزاد جموں و کشمیر کے جوانوں میں یہ سوچ فروغ پارہی ہے کہ پاکستان میں بھی ان کے نام پر سیاست زیادہ ہورہی ہے اورسنجیدہ کوششیں نہ ہونے کے برابرہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان کے سیاستدان اور حقیقی سرکار سنجیدہ ہوتے تو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین شہریار آفریدی اور امور کشمیر کا وزیر علی امین گنڈاپور جیسے لوگوں کو کیوں بناتے ؟

وہ موجودہ وفاقی حکومت سے بھی مطمئن نہیں ۔ وہ اپنے ہاں رائج نظام، جس کا عملی کنٹرول کشمیر کونسل یا اسلام آباد میں بیٹھے چند بیوروکریٹس کے ہاتھ میں ہے، سے بھی نالاں ہیں۔ اور تو اور وہ اپنی کشمیری قیادت سے بھی بدظن نظرآرہے ہیں۔ اس کانفرنس میں کئی مقررین اور نوجوانوں کو میں نے اپنی قیادت سے یہ گلہ کرتے ہوئے سنا کہ جب بلاول بھٹو آتے ہیں تو یہاں کی پیپلز پارٹی کی قیادت ہزاروں لوگوں کو نکال لاتی ہے۔ 

جب مریم نواز آتی ہیں تو یہاں کا ہر مسلم لیگی بے چین ہوتا ہے اور جب عمران خان کی آمد ہو تو پی ٹی آئی کا ہر مقامی رہنما اور کارکن آپے سے باہر ہوتا ہے لیکن جب کشمیر یوں سے یک جہتی کادن منایا جانا ہو یا پھر کشمیر میں ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج ہو تو کوئی مدعی بن کر لوگوں کو جمع نہیں کرتا ۔ لیکن اس کے باوجود وہاں پر موجود نوجوانوں کا جوش و جذبہ اور تخلیقی صلاحیتیں حیران کن ہیں ۔ باقی پاکستان کی نسبت کشمیر کی نوجوان نسل نہایت سنجیدہ ہے ۔فنون لطیفہ ، شاعری اور ادب کے میدانوں میں انہیں ناقابل یقین حد تک باقی قومیتوں سے آگے پایا۔ وہاں کا صحافی مشکل ماحول میں کام کررہا ہے لیکن باقی پاکستان کے صحافیوں کےنسبت زیادہ سنجیدہ اور اپنے کام سے مخلص ہے ۔ اسی طرح ان کی مہمان نوازی کا آج بھی کوئی ثانی نہیں۔ 

سندھ، پنجاب، پختونخوا اور اسلام آباد سے آئے ہوئے مہمانوں کی انہوں نے جس طرح عزت افزائی کی ، اس کی مثال نہیں ملتی ۔ نہ صرف کشمیر کے روایتی رقص کیساتھ انہوں نے آئے ہوئے مہمانوں پر پھول نچھاور کئے بلکہ ملتے ہوئے بھی ان کی باتوں سے پھول جھڑتے تھے ۔ کشمیر کے شعرا اور بالخصوص نوجوان شعرا کی شاعری کی پختگی کو دیکھ کر ملک بھر سے آئے ہوئے چوٹی کے شعرا بھی انگشت بدنداںرہ گئے۔ کم و بیش ہر شاعر کی شاعری مزاحمت اور مقبوضہ کشمیرکے باسیوں کے درد سے بھری پڑی ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ ان کے ہاں عشقیہ اور مزاحیہ شاعری بھی بدرجہ کمال تخلیق ہورہی ہے۔ 

کشمیر کے نوجوان شعرا کی شاعری سے متاثر ہوکر میں نے ان کے ساتھ جیو نیوز کیلئے جرگہ بھی ریکارڈ کیا جسے دیکھ کر آپ بخوبی اندازہ لگاسکیں گے کہ میں نے کسی مبالغے سے کام نہیں لیا۔ میں نے آج تک اپنی کسی کتاب کی تقریب رونمائی نہیں کی لیکن احمد شاہ صاحب کے اصرار پر یہاں اپنی نئی کتاب ”اور تبدیلی گلے پڑگئی“ کی تقریب رونمائی کی۔اس حوالے سے بھرے ہال میں میری اور تقریب کے مقررین کی جو پذیرائی ہوئی اس پر میں زندگی بھر کشمیریوں کا شکر گزار رہوں گا۔ آخر میں کشمیری صحافی اور شاعر ابراہیم گل کے چند اشعار جو انہوں نے فیسٹیول میں منعقدہ مشاعرےمیں سنائے، جو اس وقت کے پاکستانی معاشرے کی بھی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔ابراہیم گل فرماتے ہیں کہ :

یہ دست بستہ سلام، احترام دو نمبر

نمٹ رہے ہیں یوں سرکاری کام دو نمبر

حضور سارے کا سارا نظام دو نمبر

یہ آقا اور یہ سارے غلام دو نمبر

کسی کو دیکھ کہ دل دےدیا بُرا کیا ہے؟

بُرے ہی اس کو کہیں گے یہ کام دو نمبر

حواس باختہ رندوں کے لب پہ نعرہ ہے

یہ میکدہ بھی یہ ساقی یہ جام دو نمبر

پُلس بھی ڈال رہی ہے لگام دو نمبر

ہمارے دیس کا تاجر ہمارا قاتل ہے

یہ مال بیچ رہا ہے تمام دو نمبر

وہ بار بار جو بھیجے ہے برقیاتی سلام

مجھے تو لگتا ہے اُس کا سلام دو نمبر

یہ تیز چلتی نہیں گھنٹوں لیٹ ہوتی ہے

وہ ریل جس کو کہیں تیز گام دو نمبر

ہزار ڈھونڈو گے، پاؤ گے صد ہزار یہاں

جو کرنا جانتے ہیں سارے کام دو نمبر

غزل سُنی میری فتنہ گروں نے، گُل بولے

سُنا رہا ہے یہ شاعر کلام دو نمبر


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔