Time 28 جون ، 2023
بلاگ

الوداع الوداع، پی ٹی آئی الوداع

سیاست میں عمران خان کی مثال اس لاڈلے بچے کی سی تھی جسے باپ نے ہر سہولت فراہم کرکے نہ صرف سر چڑھا رکھا ہو بلکہ اسے دوسروں پر رعب جمانے اور بے عزت کرنے کی بھی مکمل آزادی دے رکھی ہو۔ 2010ءسے اس کا آغاز ہوا تھا اور 2022ء کے اواخر تک جاری رہا لیکن جنرل قمر باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد یہ عمل عروج کو پہنچا۔

 وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد عمران خان کے اندر کا بے رحم اور سفاک انسان باہر نکل آیا ۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید بوجوہ ان کا ہر لاڈ اٹھاتے رہے۔ عدلیہ، میڈیا اور نیب کو ان کے قدموں میں لابٹھایا گیا۔ ان کو وہ کام کرنے کی بھی اجازت تھی جو ماضی کے وزرائے اعظم کیلئے ناقابل معافی جرم سمجھے جاتے تھے ۔ مثلاً زرداری کیلئے حسین حقانی کے ذریعے امریکہ سے براہ راست رابطہ ناقابل معافی جرم بن گیا تھا لیکن عمران خان کو برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے زلفی بخاری کے ذریعے ڈونلڈٹرمپ کے ساتھ ان کے اسرائیل نواز داماد جیریڈ کروشنر سے واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کار بنایا گیا تھا۔ نواز شریف کی حکومت میں ڈی جی آئی ایس پی آر حکومت وقت کے ساتھ مقابلے میں مگن رہتے تھے لیکن عمران خان کے دور میں ڈی جی آئی ایس پی آر فوج کے کم اور عمران کے زیادہ ترجمان بنے تھے۔ 

کسی وزیراعظم کو اپنے حلف کے مطابق ریاستی راز اپنی بیوی کے ساتھ ڈسکس کرنے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن عمران خان ٹی وی پر خطابات میں کہتے رہے کہ وہ ہر فیصلہ اپنی اہلیہ سے مشورہ کرکے کرتے ہیں۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ اور ریاست سے متعلق معاملات میں اپنی اہلیہ کے خوابوں اور فالوں کے ذریعے فیصلے کرنا شروع کئے ۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری میں تنازع انہوں نے بشریٰ بی بی کے ساتھ ایک اور لیفٹیننٹ جنرل کی ساز باز کے نتیجے میں پیدا کیا۔ 

اسی طرح اقتدار سے محرومی کے بعد انہوں نے قاسم سوری کے ذریعے دھڑلے سے آئین شکنی کی لیکن لاڈلا ہونے کی بنیاد پر ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہ ہوئی۔ میں ستمبر 2022کو اپنے کالم میں لکھ چکا ہوں کہ عمران خان اور جنرل باجوہ کی ایوان صدر میں ملاقات صدر عارف علوی نے نہیں بلکہ زلمے خلیل زاد نے کروائی تھی۔ آج میں آپ کو ایک اور خبر دے رہا ہوں کہ مذکورہ ملاقات کے علاوہ بھی جنرل باجوہ کے ساتھ عمران خان کی مزید تین خفیہ ملاقاتیں ہوئیں جن میں اور لوگ بھی موجود تھے ۔ اب ایک طرف وہ جنرل باجوہ سے ملاقاتیں کرکے اقتدار کی بھیک مانگتے رہے اور دوسری طرف میڈیا میں انہیں میرجعفر اور میر صادق کہہ کر بلیک میل کرتے رہے ۔

 آرمی قیادت میں تبدیلی کے بعد بھی عمران خان نے وہی لاڈلے والا رویہ برقرار رکھا۔ ایک طرف وہ جنرل عاصم منیر اور ڈی جی آئی ایس آئی سے رابطے کرکے منت ترلہ کرتے رہے اور دوسری طرف میڈیا یا جلسوں میں ان پر طرح طرح کے الزامات لگاکر بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔انہوں نے ہر طریقے اور ہر ذریعے سے منت ترلہ کیا لیکن آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے انہیں یہی جواب ملتارہا کہ ان کا سیاست سے کوئی سروکار نہیں اور وہ وزیراعظم شہباز شریف سے رابطہ کریں۔ یہی عمران خان کی بنیادی غلطی تھی کہ وہ جنرل عاصم منیر کو جنرل قمر باجوہ اور جنرل ندیم انجم کو جنرل فیض حمید سمجھ بیٹھے، حالانکہ وہ ایک ساتھ کام کرنے کے باوجود مزاج ، طرز زندگی اور ڈیوٹی نبھانے میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔یہ دونوں جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کی طرح ناجائز طریقوں سے عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کے جرم میں براہ راست ملوث یا کسی احساس جرم کا شکار بھی نہیں تھے۔ 

ابتدا میں وہ دونوں کافی صبر سے کام لیتے رہے اور انتقام کی بجائے انہوں نے سیاسی حل کیلئے انتظار کیا لیکن عمران خان مقبولیت کے زعم میں مبتلا رہے اور الٹا ایسے اقدامات شروع کئے جو حکومت نہیں بلکہ ریاست مخالف بھی تھے۔9مئی کو بعض بیرونی قوتوں اور بعض ریٹائرڈ جرنیلوں کے ورغلانے پر پی ٹی آئی نے اس زعم میں آخری وارکیا اور حکومت کی بجائے فوج پر حملہ آور ہوئی۔ کور کمانڈرز میٹنگ، پھر فارمیشنز کمانڈرز اور پھر کابینہ کی نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ کے متفقہ فیصلوں کے مطابق پی ٹی آئی نے سیکورٹی فورسز کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ ستر سال میں ازلی دشمن ملک بھی نہیں کرسکا تھا۔

سیکورٹی فورسز کو یقین ہے کہ نہ صرف یہ پی ٹی آئی کا منظم منصوبہ تھا بلکہ اس کے پیچھے بیرونی، پاکستان دشمن عناصر کا ہاتھ بھی تھا۔ چنانچہ اب پی ٹی آئی کو سیکورٹی ادارے اندرونی سیاست کے آئینے میں نہیں بلکہ ریاست کے خلاف بغاوت کی کوشش کے مجرم کی نظر سے دیکھ رہےہیں۔پہلے اشارے کنائیوں سے یہ پیغام دیا گیا کہ جو عمران خان کے ساتھ کھڑا رہے گا ، اسے فوج کو لڑانے کی سازش کرنیوالوں کی طرح ڈیل کیا جائے گا لیکن کچھ لوگوں نے اس معاملے کو ہلکا لیاحالانکہ 9مئی کے بعدکچھ وقت تحقیقات میں لگا ۔ کچھ وقت اپنی صفوں کو درست کرنے میں لگا اور اب لگتا ہے کہ عید کے بعد فیصلہ کن کارروائیاں شروع ہوں گی ۔ 

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اچھا ہورہا ہے یا برا ہورہا ہے لیکن یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ عمران خان کو اب اسی طرح ڈیل کیا جائے گا جس طرح ریاست کے خلاف سازش کرنے والے عناصر کو ڈیل کیا جاتا ہے اور ان کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جوالطاف حسین کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ ہوتا رہا۔’ عمرانداروں‘ یا پھر بعض میڈیا پرسنز کے’ عمراندارانہ‘ رویے سے جو تھوڑا بہت اشکال پیدا ہوگیا تھا، اسے گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں دور کردیا۔انکی طویل پریس کانفرنس نہ صرف کورکمانڈرز میٹنگ اور فارمیشن کمانڈر میٹنگز کی پریس ریلیز کی تشریح تھی بلکہ ان اداروں اور افراد کیلئے واشگاف پیغام بھی، جو اَب بھی یہ خواب دیکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی بچ جائیگی یا پھر عمران خان اگلے الیکشن میں بھی ایک کردار ہوں گے ۔

تفصیل دے کر ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتا دیا کہ ہم نے اگر اپنے تھری اور ٹو اسٹار جرنیلوں کو نہیں چھوڑا تو سویلین کردار یہ خیال دل سے نکال دیں کہ انہیں کسی بھی صورت معاف کردیا جائے گا۔ مستقبل کا حال اللہ جانتا ہے لیکن سردست میرا اندازہ ہے کہ اگلے الیکشن میں عمران خان میدان میں ہوں گے اور نہ ان کی پارٹی۔ جو ان کے ساتھ ہوگا، وہ بیرون ملک فرار ہوگا یا پھر جیل کے اندر۔ پی ٹی آئی کے وابستگان اور’ عمرانداروں‘ کیلئے میرا پیغام ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل عاصم منیر یا پھر جنرل فیض حمید اور جنرل ندیم انجم کی شخصیات اور ترجیحات میں فرق جان کر جیو۔ جو یہ فرق نہ کرسکا وہ مارا جائے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔