02 اگست ، 2023
موجودہ حکومت کے آخری دنوں میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایوانوں سے دھڑا دھڑ بل منظور ہونے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ ارکان پارلیمنٹ کا مؤقف ہے کہ بلز کی کاپیاں بھی ارکان کو نہیں دی جا رہیں۔
ارکان پارلیمنٹ کا موقف ہے کہ نئی قانون سازی کے بلز متعلقہ کمیٹیوں کو بھی نہیں بھیجے جا رہے اور نئی قانون سازی پر ایوان میں بحث بھی نہیں کرائی جا رہی۔
ممبران اسمبلی کی جانب سے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جلد بازی میں کی گئی قانون سازی کے اثرات ہوں گے۔
صرف ایک روز میں قومی اسمبلی نے ایک درجن سے زائد بل منظور کیے اور بعض شقوں میں تو ایسے بل بھی پاس کروائے گئے جو ایجنڈے پر موجود ہی نہیں تھے۔
جمعرات 27 جولائی کو قومی اسمبلی نے 24 بل منظور کیے جبکہ جمعہ 28 جولائی کو قومی اسمبلی نے 29 بل منظور کیے، گزشتہ روز بھی قومی اسمبلی سے 6 بل پاس کروائے گئے اور اسی قانون سازی کو لیکر حکومتی اراکین میں جھگڑا ہو گیا جس کی وجہ سے اسپیکر کو قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنا پڑ گیا۔
اس کی مثال نگران حکومت کی مدت کے حوالے سے بل ہے جس کا ایجنڈا نا تو وقت پر جاری کیا گیا اور نا ہی اس کا مسودہ ارکان کو فراہم کیا گیا تھا، اس کے علاوہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ بل بھی ایجنڈے میں شامل نہیں تھا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کے بل بغیر بحث کے منظور کروائے گئے۔
اس قانون سازی کے حوالے سے اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے شدید احتجاج بھی کیا گیا اور جماعت اسلامی کے رکن عبدالاکبر چترالی کا کہنا تھا اسمبلی کی مدت ختم ہو رہی ہے تو گھوڑے پر بیٹھ کر قانون سازی کی جا رہی ہے۔
اسی طرح سینیٹ کے 24 جولائی سے جاری اجلاس میں بھی اب تک 13 بل منظور کروائے جا چکے ہیں جس میں سے کچھ بل تو ایوان بالا میں براہ راست پیش کر کے منظور کروائے گئے جیسے آرمی ایکٹ ترمیمی بل، ڈی ایچ اے بل اور کنٹونمنٹ بل کو سینیٹ نے فوری طور پر ایجنڈا میں پیش کیا گیا اور اسی وقت منظور کر لیا گیا۔