پاکستان

’پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون درست قرار پایا تو نیب ترامیم کیخلاف کیس کا فیصلہ کالعدم قرار پائے گا‘

کیس کی تیز سماعت کیلئے وفاقی حکومت کے وکیل کو تحریری جواب جمع کرانے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دی جاتی ہے، سپریم کورٹ— فوٹو:فائل
کیس کی تیز سماعت کیلئے وفاقی حکومت کے وکیل کو تحریری جواب جمع کرانے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دی جاتی ہے، سپریم کورٹ— فوٹو:فائل

سپریم کورٹ  نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کی گزشتہ روز کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا  جس میں جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ بھی شامل ہے۔

سپریم کورٹ  نے نیب ترامیم کےخلاف کیس کی گزشتہ روزکی سماعت کا حکم نامہ جاری کردیا۔  حکم نامے میں جسٹس منصورعلی شاہ کا دوصفحات پرمشتمل نوٹ بھی شامل ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے 16 مئی کے حکم کے تحت عدالتی سوالات کےتحریری جوابات جمع کرائے، وفاقی حکومت کے وکیل نے نیب ترامیم کےخلاف کیس خارج کرنے کی استدعا کی، بظاہر 16 مئی کے عدالتی حکم نامے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔

عدالت نے حکم دیاکہ کیس کی تیز سماعت کیلئے وفاقی حکومت کے وکیل کو تحریری جواب جمع کرانے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دی جاتی ہے اور 29 اگست کو وفاقی حکومت کے وکیل دلائل دیں۔

جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ

دوسری جانب نیب ترامیم کیس کی آخری سماعت کے تحریری حکم نامے میں جسٹس منصورعلی شاہ کا نوٹ بھی شامل ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ کے نوٹ کے متن کے مطابق ہم 19 جولائی 2022 سے نیب ترامیم کے خلاف کیس سن رہے ہیں، 16مارچ کوکیس کی 46 ویں سماعت کے دن پارلیمنٹ نے پریکٹس اینڈپروسیجر قانون نافذ کیا، پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون کےسیکشن 3 کے مطابق 184(3) کےمقدمات کیلئے چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی کمیٹی بینچ بنائے گی۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 4 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق مقدمات کی سماعت کم ازکم 5 رکنی لارجر بینچ کرے گا، پریکٹس اینڈپروسیجرقانون نافذ ہونے کے بعد میں ترامیم کی گزشتہ سماعت 16مئی کو ہوئی، 16 مئی کی سماعت سے قبل میں نے کیس سننے سے متعلق چیف جسٹس پاکستان کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا، 16 مئی کو کیس کی سماعت ملتوی کر دی گئی۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھاکہ میری رائےتھی کہ نیب ترامیم کیس کی مزید سماعت پریکٹس اینڈپروسیجر قانون کے فیصلے کے بعد کی جائے لیکن پریکٹس اینڈپروسیجرقانون کیس کا فیصلہ کیے بغیر نیب ترامیم کیس سماعت کےلیےمقررکیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ نیب ترامیم کیس سمیت پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون تمام زیرالتوا مقدمات پر بھی لاگوہوتا ہے، مجھے معلوم ہے کہ 8رکنی لارجر بینچ نےپریکٹس اینڈپروسیجرقانون پرحکم امتناع جاری کررکھاہے، یہ امتناع عبوری حکم ہے، پریکٹس اینڈپروسیجرقانون کوآئینی طور پردرست یاغلط قرار دیے جانے کا یکساں امکان ہے، اگرپریکٹس اینڈپروسیجر قانون کو درست قرار دیا جاتا ہے تو قانون سپریم کورٹ کے فیصلے کی تاریخ کے بجائے اپنی نافذ کی گئی تاریخ سے لاگو ہوگا۔

جسٹس منصور علی شاہ کا حکم نامے میں کہنا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون درست قرار دیاگیا تو نیب ترامیم کےخلاف کیس کا فیصلہ قانون کی نظر میں کالعدم قرار پائے گا لہٰذا میرا مؤقف ہےکہ کسی بھی بےضابطگی سےبچنے کے لیے 184(3)کے مقدمات پریکٹس اینڈپروسیجرقانون کیس کا فیصلہ ہونے تک نہ سنے جائیں اور آرٹیکل 184(3) کے مقدمات سننے ضروری بھی ہوں تو فل کورٹ تشکیل دی جائے۔

نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ میں نے فوجی عدالتوں کے خلاف کیس میں 22 جون کو اپنی رائے دی تھی، چیف جسٹس پاکستان سےدرخواست ہے نیب ترامیم کےخلاف کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنایا جائے، امید ہے چیف جسٹس میری درخواست پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھاکہ نیب ترامیم کیس کے فریقین کے وکلا سے بھی بینچ بنانے پر رہنمائی لی جائے، موجودہ بینچ نیب ترامیم کیس سنے یا پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کیس کا فیصلہ کیا جائے یافل کورٹ بنائی جائے؟ فریقین کے وکلا آئندہ سماعت پر اس قانونی نکتے پر تیاری کے ساتھ آئیں۔


مزید خبریں :