ہائے تنہائی نہ پوچھ!

آج مملکت سیاسی افراتفری، انتشاراور تباہی کے دہانے پر ، جہاں بنیادی وجہ ستر سال سے اسٹیبلشمنٹ کی مملکت پر یلغار وہاں سیاستدانوں کی باہمی افراط و تفریط و چپقلش، خود غرضی ہراول دستہ بنی۔ 

17 اپریل 1953وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو جب زور زبردستی ’’چلتا‘‘کیا گیا تو اگلے دن ساری کابینہ باجماعت پیچھے امام محمد علی بوگرہ کیساتھ حلف اٹھارہی تھی ۔ تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے ۔ نواز شریف 21اکتوبر کو وطن واپسی کا ارادہ باندھ چُکے ہیں ۔ بظاہر اگلے منتخب وزیراعظم بننے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہیں ۔

 پچھلی دفعہ جب بے توقیری کیساتھ اقتدار سے علیحدہ ہوئے تو’’ووٹ کو عزت دو‘‘، اگرچہ ملفوف مگر اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اُنکی عوامی مقبولیت کو ساتویں آسمان تک پہنچا گیا ۔’’ ووٹ کو عزت دو‘‘کیلئے 13 جولائی کو بیٹی کیساتھ جیل جا کر خاطر خواہ قربانی بھی دی ۔چار دن بعد 17 جولائی کو شہباز شریف نے ’’ـ خدمت کو ووٹ دو‘‘جیسا اچھوتا مزاحیہ بیانیہ متعارف کروا دیا کہ چشم تصور میں خوشحالی نے ووٹ دلوانے تھے، نامراد ٹھہرے۔

20 اکتوبر 2020کو نواز شریف نے جب گوجرانوالہ جلسے سے خطاب کیاتو بغیر لفظ چبائے فرمایا ،’’عمران خان سے میرا جھگڑا نہیں ، وہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا فقط ایک مہرہِ ناچیز ہے ۔ میرا مقدمہ جنرل باجوہ ،جنرل فیض آپ کیخلاف کہ آپ دونوں نے ایک منتخب وزیراعظم کو ہٹا کر مملکت کو سیاسی عدم استحکام میں دھکیلا‘‘۔نواز شریف کی تقریر نے اپوزیشن تحریک کو پہلے ہی دن تتربتر کر دیا ۔

نواز شریف نے چند دن پہلے عوامی اُمنگوں کےمطابق جو بیانیہ اپنایا، آج شہباز شریف نے باقاعدہ طور پر اُسکا مکو ٹھپ دیا ۔’’ نواز شریف انتقام لینے نہیں ، زخموں پر مرہم پٹی رکھنے آ رہے ہیں ۔ وہ21 اکتوبر کو اپنا مقدمہ اللہ پر چھوڑیں گے‘‘ ۔ کیا نواز شریف کی واپسی کا سفرشہباز شریف کی حالیہ شعلہ بیانی کیساتھ مشروط ہے؟ کیا نواز شریف کیلئے وزیراعظم بننا اتنا ہی اہم اور ضروری ہے کہ بیانیہ کی قربانی دے ڈالی؟ یہ بات طے سمجھیں کہ) اگر( 2024 کے اوائل میں الیکشن ہو بھی گئے تو اگلے وزیراعظم نواز شریف ہی ہونگے کہ چارہ گر کے پاس اسکے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔

 یہ درست ہے کہ نواز شریف کا سب سے بڑا سیاسی مخالف عمران خان ہی ہے ۔ مضحکہ خیز اتناکہ اگلے الیکشن میں عمران خان کا وجود دور دور تک لاموجود رہنا ہے۔ ماضی دہرانے کو، عمران خان کی سیاست پر بھی ’کاٹا‘ لگ چُکا۔ کیا نواز شریف کی تقاریر ایک تصوراتی اپوزیشن یا سایہ کا پیچھا کریں گی؟ تحریک انصاف پارٹی کی صورتحال !آج کی تاریخ میں’’قائدین اور نمایاں لوگوں کیلئےمحفوظ راستہ ایک ہی ، پارٹی چھوڑو ،معافی مانگو سیاست کو خیر باد کہو اور باقی زندگی اللہ کی یاد میں وقف کر دو ۔ اسکے علاوہ بھی کچھ آپشن میسر روپوش ہو جاؤ ، زیرزمین چلے جاؤ یا داؤ لگے تو بیرون ملک فرار ہو جاؤ اور بقیہ عمر خواری میں گزارو یا پھر برضا و رغبت جیل اور عقوبت خانوں میں کہ توبۃ النصوح کیلئے یہ آئٹم بھی ضروری یا پھر مکمل طور پر قید و بند میں خرچ ہو جاؤ‘‘۔ تحریک انصاف کیساتھ کچھ بھی انہونی نہیں ہو رہی ۔ وطنی سیاسی تاریخ میں کئی دفعہ انقلابیوں کا ایسے مرحلوں سے پالا پڑا ہے ۔ عمران ریاض کی زندگی دن دہاڑے ایک چلتا پھرتا سبق ہے ، ازبر رکھنا ہوگا۔PTI والوں کو اگر آزاد رہنا ہے تو ایک دن بیان بطور جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔

2024 کا ممکنہ الیکشن پہلا الیکشن نہیں ہوگا جہاں مقبول سیاسی جماعت اور مقبول لیڈر کو بزور بازو الیکشن سے باہر یا شکست سے دوچارکیا جائے گا ۔ قبل ازیں، شیخ مجیب الرحمان سے لیکر نواز شریف تک، کئی بھگت چُکے ہیں ۔ الیکشن کا ذکر اذکار تو بھلا 1971 کا مشرقی پاکستان میں ضمنی الیکشن کیونکر آنکھ اوجھل؟ عوامی لیگ کالعدم قرار، آدھے لیڈر بھگوڑے بنے، باقی توبہ تائب ہو گئے۔ جب ضمنی الیکشن کا عملاً انعقاد ہوا تو سیٹوں کی بندر بانٹ کیسے بُھلائی جا سکتی ہے۔ ایک سبق اور بھی ، ہر ایسی مہم جوئی کے چند سال بعد ’’مہم جو ‘‘ اور ریاست دونوں عمیق گڑھے میں دکھتے ہیں ۔ کیا اس بار’’چند سال ‘‘والی سہولت بھی میسر ہوگی یا نہیں؟

9 مئی کے واقعہ نے اسٹیبلشمنٹ کو ’’ ناقابلِ بیاں ‘‘ طاقتور بنا ڈالا ہے ۔ویسے تو ہمیشہ سے پسِ پردہ طاقت کا سر چشمہ، مزید قوتِ نافذہ اور اُسکے ثمرات اسٹیبلشمنٹ کے حقوق ہمیشہ سے محفوظ ہیں ۔ 9مئی کے بعد عملاً اقتدار جنرل عاصم منیر کو( BY DEFAULT) منتقل ہوچُکا ہے ۔ آج چارو ناچار آئین سے ماورا مملکت کا نظم و نسق اسٹیبلشمنٹ کی گرفت میں ہے ۔ کیا اسٹیبلشمنٹ اس صورتحال سے چھٹکارا لے پائے گی ؟ یا عملاً شیر پر سوار ہے ، اُترنا نا ممکن رہے گا ۔

 نواز شریف کی سیاسی مقبولیت کا راز اُنکا بیانیہ ہی تو تھا ۔ 2019 میں توسیعِ مدت ملازمت ہو یا اپریل 2022میں شہباز حکومت کا قیام ، نوازشریف کو بخوبی علم کہ اُنکی سیاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے ۔ چند دن پہلے جب نواز شریف نے وطن واپسی پر جنرل باجوہ اور جنرل فیض سے حساب کتاب لینے کا مطالبہ کیا تھا تو شاید مقصدبدلہ نہیں تھا ۔ میرے نزدیک ایک دفعہ یہ کام ہو گا تو مملکت کی بنیاد صحیح خطوط پر رکھ دی جائے گی ۔ یقیناً نواز شریف نے یہ بات ’’دل پشوری‘‘کیلئے نہیں کی ، رائے عامہ کا دباؤ تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آخراسٹیبلشمنٹ کو اس پر بھلا کیوں اعتراض ہے؟ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو مثال بنا کر دیرینہ عوامی مطالبہ بھی پورا ہو جاتا جبکہ اپنے ہی ادارے کیخلاف سازش پر ان دونوں کو قرار واقعی سزا بھی مل جاتی ۔سخت مقبول بیانیہ کی سیاست کا بوجھ ہماری قومی پارٹیاں اٹھانے کی سکت نہیں رکھتیں۔

دو رائے نہیں کہ عمران خان کو بھی جب کوئی مفاہمتی فارمولادیا گیا جس میں اُنکے اقتدار میں آنے کے امکانات ہوئے تو آئین کو تہہ بالا کرتے ہوئے بھی اقتدار پکڑ لیں گے ۔ حیف ! نواز شریف صاحب نے بالآخر یہی اصول اپنا لیا ہے کہ اقتدار کے حصول کیلئے عملیت پسندی ضروری ہے۔نواز شریف کیلئے چند غور طلب باتیں،بالفرض محال 2024 میں( قوی امکان) الیکشن نہیں ہوپاتے تو پھر ایسی صورتحال میں اپنا مقدمہ کس عدالت میں کس کیخلاف پیش کریں گے یا پھر الیکشن کی غیر موجودگی میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے آرام فرمائیں گے ؟

 اگر تحریک انصاف کو زور زبردستی فارغ کر کے سیٹوں کی بذریعہ بندر بانٹ سےآپکو حکومت مل بھی گئی تو کیاایسے غیر سیاسی ماحول میں خوشحالی یااستحکام لا پائیں گے ؟ کیا ایسی حکومت یا بصورت دیگر نگران حکومت میں عملاً اصلاً حکمران اسٹیبلشمنٹ نہیں ہو گی؟ کیا آپ مشروط وزیراعظم بن کر مقبول سیاست سے ہمیشہ کیلئے باعزت بَری ہونے پر تیار ہیں ؟قطع نظر ،سیاستدان اپنے لیے کیا کیا پسند فرماتے ہیں؟ میری خود غرضی اور سہولت کہ اپنے لیے من و عن آئین و قانون کی حکمرانی کا بیانیہ پسند فرماؤں۔ قلق ضرورکہ دوست ساتھی سیاستدان سب خود غرض نکلے، آئین و قانون سے ماورامشاغل ڈھونڈ نکالے۔ اصولی بیانیہ پر میں تنہا ،’’کاؤ کاؤِ سخت جانی ، ہائے تنہائی نہ پوچھ‘‘۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔