11 اکتوبر ، 2023
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ Last but not the least ہیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کیس قابل سماعت ہونے پر دلائل دےچکا ہوں، تین سوالات اٹھائے گئے تھےجن کا جواب دوں گا، میں آرٹیکل191 اور عدلیہ کی آزادی کی بات کروں گا، پارلیمنٹ کے ماسٹر آف روسٹر ہونے کے سوال پر دلائل دوں گا، اپیل کا حق دیے جانے پر دلائل دوں گا اور فل کورٹ کےفیصلے کے خلاف اپیل کے سوال پر بھی دلائل دوں گا۔
منصور عثمان کا کہنا تھا آرٹیکل 14، 20، 22 اور 28 میں درج بنیادی حقوق پر عمل قانون کے مطابق ہوتا ہے، رائٹ ٹو پرائیویسی کو قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیاگیا ہے، آرٹیکل 191 سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ملتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کیا آپ یہ کہہ رہےہیں کہ آرٹیکل 191میں لاء کا لفظ باقی آئینی شقوں میں اس لفظ کے استعمال سے مختلف ہے؟
اٹارنی جنرل پاکستان کا کہنا تھا سنگین غداری کے قانون اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں قانون سازی کا اختیار آئینی شقوں سے لیا گیا، ان قوانین میں پارلیمنٹ نے فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پر انحصار نہیں کیا تھا، جب سے آئین بنا ہے آرٹیکل 191 میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی، آرٹیکل 191 میں ترمیم نہ ہونا عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا 1956کے آئین کے مطابق رولز کی منظوری صدر یا گورنر جنرل کی تھی، آپ کے مطابق پارلیمنٹ کو رولز میں رد و بدل کی اجازت ہے، آپ کی دلیل مان لی جائے تو اس سے پہلے سپریم کورٹ رولز کی منظوری پارلیمنٹ نے کیوں نہیں دی؟
اٹارنی جنرل عثمان انور کا کہنا تھا اختیار استعمال کرنے کا مطلب یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ پارلیمنٹ کا اختیار ختم ہو گیا، پارلیمان کا آرٹیکل 191 میں ترمیم نہ کرنے کا مطلب اپنا اختیار سرینڈر کرنا نہیں، آرٹیکل 191 میں قانون کا لفظ موجود ہے جس کے تحت ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر لاء بنا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی ہے، لاء کا لفظ آئین میں 200 بار استعمال ہوا تو کیا اس کا ایک ہی مطلب ہو گا؟ جس پر عثمان انور کا کہنا تھا قانون یا تو پارلیمنٹ بناتی ہے یا پھر جج میڈ لاء ہوتا ہے۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا آرٹیکل 8 کہتا ہے ایسی قانون سازی نہیں ہو سکتی جو بنیادی حقوق واپس لے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا آرٹیکل 191 کے تحت پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے، پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی کے خلاف قانون سازی نہیں کر سکتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا اصل سوال تو عدلیہ کی آزادی کا ہی ہے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا یہ ایکٹ عدلیہ کی آزادی کو سلب کر رہا ہے یا بڑھا رہا ہے؟
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا اختیارات کی تقسیم کے اصول، عدلیہ کی آزادی کے نکات پر دلائل میں ان سوالات کے جواب دوں گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے مسٹر اٹارنی جنرل یہ لفاظ صرف لاء نہیں سبجیکٹ ٹو لاء ہے جبکہ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا آرٹیکل 191 مختلف اور باقی جن آرٹیکلز کا حوالہ آپ دے رہے ہیں وہ مختلف ہیں، جن آرٹیکلز کا حوالہ آپ نے دیا ہے وہ بنیادی حقوق ہیں، آرٹیکل 192 میں لاء کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ ہے جو انٹری 58 سے نکلتی ہے، صوبائی اسمبلی کیوں یہ قانون سازی نہیں کر سکتی؟ ان معاملات میں مشکلات ہیں، ون سائز فٹس آل نہیں چل سکتا یہاں پر۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا یہ کیوں نہیں کہتے آئین سازوں نے پارلیمنٹ یا لاء کا لفظ دانستہ استعمال کیا ہے، آئین سازوں نے آئین کو جاندار کتاب کے طور پر بنایا ہے جو وقت پڑنے پر استعمال ہو سکے جبکہ جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا آرٹیکل 191 میں قانون کا لفظ استعمال کیوں ہوا، اس پر بھی روشنی ڈالیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا آرٹیکل 191 میں قانون کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ ہی لیا جائے گا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا ایکٹ آف پارلیمنٹ صوبائی اسمبلی کا بھی ہوسکتا ہے، کیا صوبے اپنی ہائیکورٹ کیلئے قانون سازی کر سکتے ہیں؟ جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا آئین ساز یہ بھی کہہ سکتے تھےکہ سپریم کورٹ اپنے رولز تب تک بنائے جب تک کوئی قانون سازی نہیں ہو جاتی، آئین سازوں کی نیت سےکہیں واضح نہیں کہ قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز بدل سکتے ہیں۔
جسٹس منیت اختر کا کہنا تھا کیا سپریم کورٹ رولز 1980 لاء ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا سپریم کورٹ رولز 1980 آرٹیکل 191 میں لکھے الفاظ لاء میں نہیں آتے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا آئین میں کہاں لکھا ہے کہ عدالتی فیصلے بھی قانون ہوں گے، عدالتی فیصلوں کی پابندی اور ان پر عملدرآمد ضروری ہے؟ جبکہ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا ایگزیکٹو اور پارلیمنٹ کے رولز قانون ہیں؟ اگر یہ قانون ہیں تو سپریم کورٹ رولز لاء میں کیوں نہیں آتے؟
جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ رولز 1980 لاء ہیں لیکن آرٹیکل 191 میں درج لفظ لاء کے اندر نہیں آتے جبکہ جسٹس منیب اختر نے عثمان منصور سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا اٹارنی جنرل صاحب آپ غیر معمولی بات کر رہے ہیں، آپ میری دلیل تو سمجھیں، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا آپ کی بات سمجھ گیا ہوں لیکن پھر بھی آپ کہہ دیں۔
اٹارنیل جنرل کا کہنا تھا ایگزیکٹو اور پارلیمان کے رولز قانون کا درجہ رکھتے ہیں، رولز قانون ہوتے ہیں لیکن یہ آرٹیکل 191 میں استعمال شدہ لفظ قانون نہیں کہلائیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا آپ نے بحث کسی اور بنیاد پر شروع کی تھی، اگر آپ اپنے دلائل ہی جاری رکھتے تو یہ مشکل کھڑی نا ہوتی، کچھ سوالات کے ہاں یا ناں میں جواب دینا مشکل ہوتا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا آپ کے مطابق رولز عام طور پر قانون ہوتے ہیں تو عدالت لفظ قانون کی تشریح کس اصول پر کرے گی؟ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا 1956 کے رولز آئین کی کون سی شق کے مطابق بنے تھے؟ جسٹس مظاہر نقوی نے پوچھا سپریم کورٹ کے آخری رولز 1980 میں بنے تو مطلب پارلیمنٹ 43 سال سوتی رہی؟
جسٹس مظاہر نقوی نے پوچھا پارلیمنٹ کا ریکارڈ لائے ہیں آپ؟ اس ایکٹ پر بحث ہوئی تھی یا نہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا پارلیمنٹ کا ریکارڈ ان کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا ایکٹ میں پارلیمنٹ کا مسئلہ ازخود نوٹس یا آرٹیکل 184 تین سے متعلق طریقہ کار بنانا تھا، پارلیمنٹ نے ایکٹ میں ازخودنوٹس سے نکل کر ہر طرح کے کیس کیلیے ججز کمیٹی بنا دی، ایک دم سے ساری چیزیں اوپر نیچے کرنا پارلیمنٹ کے لیے ٹھیک نہیں تھا، پارلیمنٹ کے اختیار استعمال کرنےکا بھی کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے تھا، اگر غلطیاں سپریم کورٹ میں ہیں تو پارلیمنٹ کی بھی ہیں، جو مسئلہ تھا پارلیمنٹ اسےٹھیک کرتی۔
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمان ہماری دشمن نہیں، لوگوں کے حقوق ہیں، ہم بار بار بھول جاتے ہیں دنیا مل کر چلتی ہے، ہم ایک دوسرےکے ادارے کو منفی سوچ سے کیوں دیکھتے ہیں، جیو اور جینے دو کا اصول اپنانا ہو گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا اٹارنی جنرل، قانون غلط ہے یہ درخواست گزاروں کو ثابت کرنا ہے، آپ یہ بتائیں قانون آئین کے مطابق ہے یا نہیں؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا پارلیمنٹ چاہتی تو ایک قدم آ گے جاسکتی تھی، پارلیمنٹ نے عدالت پر اعتماد کیا کہ ہم اپنےمعاملات کیسے چلائیں، پارلیمنٹ نے اس قانون سے سپریم کورٹ کی عزت رکھی، ہم آئینی ادارے پارلیمنٹ میں ’مین میخ‘ نکال رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماضی قریب میں سپریم کورٹ نے اختیار سماعت بڑھایا نہیں بلکہ تخلیق کیا، کیا بطور سپریم کورٹ ہم ایسا کر سکتے ہیں جس کا اختیار نہیں تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جب ڈکٹیٹر شپ چل رہی تھی اور ایک جابر نے حقوق سلب کر لیے تھے تو اس وقت کوئی نہیں بولا اور اب جب پارلیمان نے قانون سازی کی تو سوالات ہو رہے ہیں، یہاں سپریم کورٹ کو مزیداختیار دیا جا رہا ہے اگر نہیں پسند آ رہا تو کالعدم قرار دے دیجیےگا۔
اٹارنی جنرل عثمان منصور کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران ایم کیو ایم پاکستان کے وکیل کے دلائل کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منیب کے درمیان نوک جھونک بھی دیکھی گئی تھی۔