16 اکتوبر ، 2023
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی ضمانت پر رہائی اور مقدمہ خارج کرنے کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
عدالت میں ایف آئی اے کے سپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے دلائل دیے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کی معلومات پبلک تک پہنچائیں جس کے وہ مجاز نا تھے، یہ سائفر ایک سیکرٹ ڈاکومنٹ تھا جس کی معلومات پبلک نہیں کی جا سکتی تھیں، اس جرم کی سزا چودہ سال قید یا سزائے موت بنتی ہے، سیکرٹ ڈاکومنٹ پبلک کرنے پر بطور وزیر اعظم آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل نہیں، سائفر کوڈڈ ہوتا ہے تاکہ وہ کسی اور کے ہاتھ نہ لگے۔
انہوں نے چین آف کسٹڈی بتائی کہ دفتر خارجہ میں سائفر اسسٹنٹ نعمان نے سائفر وصول کیا جو فارن سیکرٹری سے ہوتا ہوا آخر میں اس وقت کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان تک پہنچا، اعظم خان کے لاپتہ ہونے پر مقدمہ درج ہوا مگر وہ تفتیشی افسر کے سامنے خود پیش ہوئے اور بیان ریکارڈ کرایا، انہوں نے بتایا سائفر والے کیس میں دباؤ تھا اس لیے ذہنی سکون کے لیے وہ کچھ عرصہ کے لیے غائب ہو گئے تھے، وہ اس کیس کے اہم گواہ ہیں۔
راجہ رضوان عباسی نے ٹرائل کورٹ کے گواہوں کے بیان پڑھا شروع کیے تو بیرسٹر سلمان صفدر نے اعتراض کیا۔ اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا چیئرمین پی ٹی آئی نے 27 مارچ کو پریڈ گراؤنڈ جلسے میں سائفر لہرایا اور سیاسی فائدے کے لیے معلومات پبلک کیں، 8 اپریل کو کابینہ اجلاس میں تجویز آئی کہ سائفر کو ڈی کلاسیفائیڈ کر دیا جائے، سیکرٹری خارجہ سمیت دیگر کے شدید اعتراض پر یہ تجویز مسترد ہو گئی، صرف چیف جسٹس سمیت پانچ افراد کے لیے ڈی کلاسیفائی کیا گیا، پبلک کے لیے نہیں۔
سلمان صفدر نے جوابی دلائل میں کہاسائفر سے سکیورٹی میتھڈ کیسے کمپرومائز ہو گیا ہے؟ یہ نہیں بتایا گیا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سیکشن فائیو کو جتنا مرضی کھینچ لیں، اس کیس پر اطلاق نہیں ہوتا۔
لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے جوابی دلائل میں کہاکہ ان کے موکل نے کوئی اعتراف نہیں کیا۔ انہوں نے پبلک کو کوئی سائفر نہیں دکھایا بلکہ علامتی طور پر ایک کاغذ لہرایا تھا۔
عدالت نے عمران خان کی ضمانت پر رہائی اور مقدمہ خارج کرنے کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔