23 اکتوبر ، 2023
سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا 6 صفحات پر مشتمل مختصر تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستیں منظور کرتے ہوئے ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل کالعدم قرار دے دیا۔
فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں5 رکنی لارجربینچ نے کی، بینچ میں جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھے۔
سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل 5 رکنی بینچ نے متفقہ طور پرکالعدم قرار دیا ہے تاہم آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی ون کو آئین سے متصادم 4 ججز نے قرار دیا ہے جب کہ جسٹس یحیٰی نے اس پر اپنی رائے محفوظ رکھی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چار ججز آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا سیکشن 59(4) غیر آئینی قرار دیتے ہیں۔
تحریری فیصلے کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منیب اختر ،جسٹس مظاہر نقوی،جسٹس عائشہ ملک نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کاسیکشن 59(4) غیر آئینی قرار دیا جبکہ جسٹس یحیٰی آفریدی نے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی شقوں پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ 9 اور 10مئی کے واقعات میں گرفتار افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوگا بلکہ ان کا ٹرائل کرمنل کورٹ یاقانون کے مطابق قائم خصوصی عدالتوں میں ہوگا۔
فیصلے کے مطابق 9 اور 10 مئی کے واقعات میں گرفتار افراد کے ملٹری ٹرائل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، 9 مئی کے واقعات میں ملوث تمام افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائیاں غیر قانونی قرار دی جاتی ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ چار ججز آرمی ایکٹ کا سیکشن 59 غیر آئینی قرار دیتے ہیں۔
تحریری فیصلے کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منیب اختر ، جسٹس مظاہر نقوی،جسٹس عائشہ ملک آرمی ایکٹ کا سیکشن 59 غیر آئینی قرار دیں۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 9 اور 10 مئی واقعات پر آرمی کورٹس میں چلائے گئے مقد مات غیر مؤثر قرار دیے جاتے ہیں، کورٹ مارشل سمیت کسی قسم کی بھی کارروائی غیر مؤثر ہے۔
مختصر فیصلے کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ،جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک نے شقیں غیر آئینی قرار دیں۔
فیصلے کے مطابق عام شہریوں کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کی حد تک جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی فیصلے سے اتفاق کیا۔
واضح رہے کہ اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔