14 نومبر ، 2023
اوپر موجود چہروں پر پہلی نظر میں کچھ خاص نظر نہیں آتا کیونکہ اس میں بظاہر کچھ بھی خاص نہیں اور یہی چیز اس تصویر کو غیرمعمولی بناتی ہے۔
یہ چہرے درحقیقت ایسے افراد کے ہیں جن کا دنیا میں کبھی وجود ہی نہیں تھا۔
جی ہاں واقعی یہ تصویر آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹیکنالوجی کا کمال ہے۔
یعنی یہ حقیقی انسانوں کے چہرے نہیں بلکہ اے آئی امیج جنریٹر سے تیار کیے گئے ہیں۔
حالیہ برسوں میں اے آئی امیج جنریٹر پلیٹ فارمز کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے جو تحریری ہدایات کے مطابق دنگ کردینے والی تصاویر تیار کرسکتے ہیں۔
آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ اے آئی ٹیکنالوجی اب حیران کن حد تک حقیقی نظر آنے والے انسانی چہرے بنانے کے قابل ہوچکی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ سفید فام افراد کے حقیقی جیسے نظر آنے والے چہرے تیار کرنے میں یہ ٹیکنالوجی مہارت حاصل کرچکی ہے، البتہ دیگر رنگوں کے چہروں میں ابھی وہ اس قابل نہیں ہوسکی۔
تحقیق میں ان خدشات کا اظہار کیا گیا کہ اس سے معاشرےپر منفی اثرات جیسے نسل پرستی میں اضافہ اور گمراہ کن مواد کا پھیلاؤ بڑھ سکتا ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ زیادہ تر افراد اے آئی ٹیکنالوجی کے تیار کردہ چہروں کو حقیقی انسانوں کے چہرے سمجھتے ہیں۔
محققین نے بتایا کہ اگر اے آئی ٹیکنالوجی کے تیار کردہ چہرے حقیقی نظر آنے لگے تو یہ ٹیکنالوجی سنگین اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب اس ٹیکنالوجی کو حقیقی جیسے نظر آنے والے چہرے تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور انسانوں کی طرح نظر آنے والے ان چہروں کو مختلف جرائم کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک تشویشناک حقیقت یہ ہے کہ جو افراد اے آئی کے تیار کردہ چہروں کو حقیقی تصور کرتے ہیں، وہ اپنے فیصلے پر زیادہ پراعتماد بھی ہوتے ہیں، یعنی انہیں دھوکے کا علم نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی بھی اے آئی ٹیکنالوجی اس حوالے سے غلطیاں کرتی ہے، مگر جس تیزی سے اس ٹیکنالوجی میں پیشرفت ہو رہی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے برسوں میں حقیقی اور ڈیجیٹل چہروں کے درمیان فرق کرنا لگ بھگ ناممکن ہو جائے گا۔
خیال رہے کہ ماہرین کی جانب سے یہ اکثر یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس طرح کی ٹیکنالوجی کو ڈیپ فیک تصاویر یا ویڈیوز کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔