اس تصویر نے لوگوں کے ذہن کیوں گھما دیے ہیں؟

یہ حقیقی نہیں بلکہ اے آئی ٹیکنالوجی کے تیار کردہ چہرے ہیں / فوٹو بشکریہ Nightingalea et al
یہ حقیقی نہیں بلکہ اے آئی ٹیکنالوجی کے تیار کردہ چہرے ہیں / فوٹو بشکریہ Nightingalea et al

اوپر موجود چہروں پر پہلی نظر میں کچھ خاص نظر نہیں آتا کیونکہ اس میں بظاہر کچھ بھی خاص نہیں اور یہی چیز اس تصویر کو غیرمعمولی بناتی ہے۔

یہ چہرے درحقیقت ایسے افراد کے ہیں جن کا دنیا میں کبھی وجود ہی نہیں تھا۔

جی ہاں واقعی یہ تصویر آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹیکنالوجی کا کمال ہے۔

یعنی یہ حقیقی انسانوں کے چہرے نہیں بلکہ اے آئی امیج جنریٹر سے تیار کیے گئے ہیں۔

حالیہ برسوں میں اے آئی امیج جنریٹر پلیٹ فارمز کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے جو تحریری ہدایات کے مطابق دنگ کردینے والی تصاویر تیار کرسکتے ہیں۔

آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ اے آئی ٹیکنالوجی اب حیران کن حد تک حقیقی نظر آنے والے انسانی چہرے بنانے کے قابل ہوچکی ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ سفید فام افراد کے حقیقی جیسے نظر آنے والے چہرے تیار کرنے میں یہ ٹیکنالوجی مہارت حاصل کرچکی ہے، البتہ دیگر رنگوں کے چہروں میں ابھی وہ اس قابل نہیں ہوسکی۔

تحقیق میں ان خدشات کا اظہار کیا گیا کہ اس سے معاشرےپر منفی اثرات جیسے نسل پرستی میں اضافہ اور گمراہ کن مواد کا پھیلاؤ بڑھ سکتا ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ زیادہ تر افراد اے آئی ٹیکنالوجی کے تیار کردہ چہروں کو حقیقی انسانوں کے چہرے سمجھتے ہیں۔

حقیقی اور فرضی چہروں میں فرق کرنا مشکل ہے / فوٹو بشکریہ Sage Pub
حقیقی اور فرضی چہروں میں فرق کرنا مشکل ہے / فوٹو بشکریہ Sage Pub

محققین نے بتایا کہ اگر اے آئی ٹیکنالوجی کے تیار کردہ چہرے حقیقی نظر آنے لگے تو یہ ٹیکنالوجی سنگین اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب اس ٹیکنالوجی کو حقیقی جیسے نظر آنے والے چہرے تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور انسانوں کی طرح نظر آنے والے ان چہروں کو مختلف جرائم کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک تشویشناک حقیقت یہ ہے کہ جو افراد اے آئی کے تیار کردہ چہروں کو حقیقی تصور کرتے ہیں، وہ اپنے فیصلے پر زیادہ پراعتماد بھی ہوتے ہیں، یعنی انہیں دھوکے کا علم نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی بھی اے آئی ٹیکنالوجی اس حوالے سے غلطیاں کرتی ہے، مگر جس تیزی سے اس ٹیکنالوجی میں پیشرفت ہو رہی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے برسوں میں حقیقی اور ڈیجیٹل چہروں کے درمیان فرق کرنا لگ بھگ ناممکن ہو جائے گا۔

خیال رہے کہ ماہرین کی جانب سے یہ اکثر یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس طرح کی ٹیکنالوجی کو ڈیپ فیک تصاویر یا ویڈیوز کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

مزید خبریں :