بلاگ
Time 20 نومبر ، 2023

چوہدری فواد: اب اور تب؟

چوہدری فواد حسین آج کل اڈیالہ جیل میں ہیں، کل کے وفاقی وزیر کو چند دن پہلے سر اور منہ پر کالی ٹوپی پہنا کر عدالت میں لایا گیا، مگر آج کے میرے کالم کا موضوع اب کا چوہدری فواد نہیں، تب کا چوہدری فواد ہے۔ یہ کوئی 30 برس پرانا قصہ ہے 1993یا 1994ء کی بات ہے فواد کے چچا چوہدری الطاف حسین پنجاب کے گورنر تھے، میں قلم مزدور کی حیثیت سے دبنگ گورنر کے سیاسی خیالات سننے یا ان سے انٹرویو کیلئے گورنر ہائوس جایا کرتا تھا ،ایسے ہی کسی وزٹ میں چوہدری فواد سے گورنر ہائوس میں ملاقات ہوئی، چوہدری فواد اس زمانے میں گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کےطالب علم تھے اور اپنےچچا گورنر چوہدری الطاف حسین کے پاس گورنر ہائوس میں ہی مقیم تھے۔ چوہدری فواد سے جو تعارف 30 سال پہلے ہوا تھا وہ مشترکات کی وجہ سے دوستی میں بدلتا گیا۔ کتابوں کا مطالعہ، تاریخ، سیاست اور صحافت میں دلچسپی وہ مرکزی موضوعات تھے جو ہمارے درمیان زیر بحث رہتے۔

وقت گزرا تو ایک روز چوہدری الطاف کا بطور گورنر ہی انتقال ہوگیا، مجھے گورنر ہائوس سے چوہدری الطاف کی لاش کے ساتھ روتے ہوئے چوہدری فواد کی روانگی کا منظر آج بھی یاد ہے، پھر چودھری فواد نے لاہور سے ہی قانون کی ڈگری لی اور یہیں وکالت کا دفتر بھی بنایا اس دوران یہ روزانہ کا معمول تھا کہ ہر روز گھر کے فون پر صبح ہی صبح چوہدری فواد کی کال آتی، سیاست، صحافت اور تازہ ترین حالات پر تفصیلی گفتگو ہوتی۔ سالہا سال تک چوہدری فواد کا یہ معمول رہا کہ وہ جو بھی کتاب پڑھتا اس کے بارے میں مجھے ضرور بتاتا، میں نےبھی تاریخ، سیاست اور معاشرے کے حوالے سے فواد کو کئی کتب سے متعارف کروایا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ رشتہ مضبوط ہوتا رہا۔

چوہدری فواد اور اس کے دو پارٹنر دوستوں راجہ عامر خان اور ملک محمد احمد خان (جو آج کل ن لیگ کے اہم رہنما ہیں) نے وکالت کا دفتر کھولا ہی تھا کہ چودھری فواد کے چچا چوہدری افتخار حسین لاہور کے چیف جسٹس بن گئے، فواد محنتی تھا مگر اس وقت بہت جونیئر تھا۔ ہمارے رواج کےمطابق چچا کے چیف جسٹس بنتے ہی اس کی وکالت چمک اٹھی۔ اس سے تًھوڑا عرصہ پہلے چودھری فواد عملی سیاست میں بھی کود چکے تھے مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب پیپلز پارٹی پنجاب کے رائو سکندر اقبال سے چوہدری فواد کی ملاقات میں اسے شعبہ اطلاعات کا عہدہ دیا گیا تھا۔

وقت گزرتا رہا جنرل مشرف کا مارشل لا آیا ، مسلم لیگ ق کی داغ بیل پڑی تو جہلم کایہ جاٹ خاندان چوہدری الطاف کے صاحبزادے فرخ الطاف کی سربراہی میں ق لیگ میں چلا گیا۔ چوہدری فرخ الطاف گجرات کے چوہدریوں کے قریب تھے اوپر سے چچاافتخار چوہدری چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ تھے۔ایسے میں چوہدری فرخ ضلع جہلم کے ناظم اور چوہدری فواد کے ماموں چوہدری شہباز حسین وفاقی وزیر بن گئے۔ چوہدری فواد کا اس زمانے میں سیاسی کردار بہت محدود تھا البتہ ان کا سارا زور وکالت پر تھا۔تاہم جنرل مشرف کے خلاف عدلیہ کی تحریک چلی تو اس وقت چوہدری فواد جنرل مشرف کے قریب ہوگئے اور پھر بعد ازاں اقتدار سے رخصتی کے بعد ان کی نئی جماعت میں شامل ہوگئے، چوہدری فواد اس جماعت کو مقبول بنانے کیلئے کافی متحرک ہوئے لیکن کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ جنرل مشرف کی اقتدار سے رخصتی کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت بنی، زرداری صاحب صدر اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بن گئے۔ چوہدری فواد،گیلانی خاندان کے پرانے شناسا تھے اسی تعلق کے حوالے سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے انہیں وزیر کے عہدے کے برابر کا مشیر بنا لیا اور یوں وہ گیلانی صاحب کے ترجمان بن گئے۔ اسی دوران بلاول بھٹو سے بھی ان کی گاڑھی چھننے لگی مگر یہ دور بھی گزر گیا۔ عمران خان کا ستارہ چڑھنے لگا تھا نواز شریف کےتیسرے دور کا زوال شروع تھا، پانامہ ٹرائل شروع ہونے سے پہلے ہی چوہدریفواد تحریک انصاف میں شامل ہو چکے تھے۔

چوہدری فواد سیاست، وکالت اور صحافت تینوں کے شناورتھے اسی لئے پانامہ کیس میں تحریک انصاف کی ترجمانی کرتے کرتے نہ صرف مقبول ہوئے بلکہ تحریک انصاف کے ستون بن گئے، انتخابات ہوئے تو نہ صرف ٹکٹ ملا اور وفاقی وزیر اطلاعات بن گئے بلکہ ملکی صحافت کا دھارا بدلنے کی کوشش میں مصروف ہوگئے۔

وفاقی وزیر اطلاعات کی حیثیت سے ان کی پالیسیوں کا میں شدید ناقد رہا اور انہیں یہ کہتا رہا کہ آپ جنرل باجوہ، جنرل عاصم باجوہ اور جنرل آصف غفور کے میڈیا مخالف ایجنڈے کو آگے بڑھارہے ہیں تاہم چودھری فواد یہ ماننے کو تیار نہ تھے اور ہر روز یہ بیان دیتے کہ میڈیا کا بزنس ماڈل ٹھیک نہیں ہے۔ جنرل باجوہ کہتے تھے کہ اینکرز کی تنخواہیں ہم سے بھی زیادہ ہیں، سوچ یہ تھی کہ میڈیا کی مالی آمدنی روک کر اس کو اپنے طریقے سے چلایا جائے۔ اسی دوران کئی اتار چڑھائو آتے رہے، چودھری فواد جنرل باجوہ اور مقتدرہ کے ہمیشہ قریب رہے اس بنا پر وزیر اعظم عمران خان نہ صرف انہیں ٹوکتے تھے بلکہ انہیںفوج کا آدمی کہہ کر مذاق بھی اڑایا کرتے تھے۔ جنرل باجوہ نے نہ صرف چوہدری فواد کو وفاقی وزیر داخلہ بنانے کی سفارش کی بلکہ جب عثمان بزدار کو ہٹانے کی باتیں ہو رہی تھیں تو اس وقت کی مقتدرہ نے عبدالعلیم خان کے علاوہ جن ناموں کو فیورٹ قرار دیاتھا ان میں چودھری فواد کا نام بھی شامل تھا۔

تحریک انصاف کے اقتدار سے نکلنے کے بعد اپنے لیڈر عمران خان کی طرح چوہدری فواد بھی توازن کھوبیٹھے تھے ،انہیں پاکستانی مقتدرہ کی طاقت بھول چکی تھی اور ان کا خیال تھا کہ عوام کاسمندر مقتدرہ سمیت سب کو بہا کر لے جائے گا۔ اس جذباتی سوچ کےباوجود چودھری فواد فوج سے لڑنے کے حق میں نہیںتھا، اسی لئے 9 مئی کی منصوبہ بندی کرنے والی ٹیم میں اسے شامل ہی نہیں کیا گیا تھا، مانگنے کے باوجود اسے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ بھی نہیں دیا گیا تھا۔ 9 مئی جہاں عمران خان کی مقبول سیاست کو بہا لے گیا وہاں چوہدری فواد کے سیاسی کیریئر کیلئے بھی سوالیہ نشان بن گیا۔ چودھری فواد کی گرفتاری ہوئی، سپریم کورٹ میں گرفتاری سے بچنے کیلئے بھاگنے کی ویڈیو آگئی اورپھر ایک روز ان کے تحریک انصاف چھوڑنے کی خبر بھی آگئی، جس روز وہ تحریک استحکام کے پہلے اجلاس میں گئے اس روز بھی وہ بادل نخواستہ گئے اور بعد ازاں بھی وہ اس کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہونے کی وجہ سے اس میں متحرک ہونے سے گریزاں رہے۔ چوہدری فواد کی اپنے کزن چوہدری فرخ الطاف سے دوریاں ہو چکیں، فرخ الطاف ن لیگ میں ہیں، چودھری فواد، ن میں جا نہیں سکتے، تحریک استحکام انہیں جتوا نہیں سکتی،جہلم میں آزاد امیدوار کا جیتنا مشکل ہے، ایسے میں چوہدری فواد جائے تو کہاں جائے؟ اسی کنفیوژن نے اسے اڈیالہ پہنچا دیا ہے، دیکھیں یہ کنفیوژن کب دور ہوگا؟؟؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔