03 جنوری ، 2024
سپریم کورٹ میں عام انتخابات کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سماعت 8 جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے عدالتی حکم پر عملدرآمد رپورٹ طلب کر لی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
درخواست گزار شعیب شاہین نے کہا کہ لطیف کھوسہ سینئر وکیل ہیں، میں نے ان سے دلائل کی درخواست کی ہے، میں لطیف کھوسہ کے ساتھ کھڑا ہوں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لطیف کھوسہ کے نام کے ساتھ سردار لکھنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا یہ سردار، نواب اور پیر جیسے الفاظ اب لکھنا بند کر دیں، 1976 کے بعد سے سرداری نظام ختم ہو چکا ہے، یا تو پاکستان کا آئین چلائیں یا پھر سرداری نظام، آئین پاکستان کےساتھ اب مذاق کرنا بند کر دیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا میرے شناختی کارڈ پرسردار لکھا ہے اس لیے عدالت میں بھی سردار لکھا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا سردار اور نوابوں کو چھوڑدیں، اب غلامی سے نکل آئیں، سردار لکھ کر اپنا رتبہ بڑا کرنے کی کوشش نہ کیا کریں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کیا آپ نے سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن سے رجوع کیا؟ جبکہ چیف جسٹس نے پوچھا آپ کی اب درخواست کیا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا یہ توہین عدالت کی درخواست ہے کوئی نیا کیس نہیں، مرکزی کیس 22 دسمبرکو نمٹایا جا چکا ہے، آپ کی درخواست میں بہت سارے توہین عدالت کرنے والوں کے نام ہیں، الیکشن کمیشن نے کیا توہین عدالت کی ہے؟ کیا الیکشن کمیشن نے آپ کے بارے کوئی فیصلہ دیا ؟ کیا الیکشن کمیشن نے صوبائی الیکشن کمیشن کو احکامات دیے؟
چیف جسٹس کا لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا الیکشن کمیشن نے کوئی توہین کی ہے تو ثبوت دکھائیں، جس پر لطیف کھوسہ نے کہا میں سی ڈی لایا ہوں اس میں سارے ثبوت ہیں، ہمارے رہنماؤں کو کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرانے دیے گئے، سارے پاکستان نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا یہاں سیاسی تقریرنہ کریں، آئین و قانون کی بات کریں، آپ کہہ رہے آئی جی اور چیف سیکرٹری نے کارروائی کی، آئی جی اور چیف سیکریٹری کا الیکشن سے کیا لینا دینا ہے؟ آئی جی اور چیف سیکرٹری نےنہیں، شفاف انتخابات الیکشن کمیشن نے کرانے ہیں، توہین عدالت کی درخواست الیکشن کمیشن کےخلاف ہے، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے کون سے حکم کی توہین کی ہے؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا مجھے سمجھ نہیں آرہی ہم یہ توہین عدالت کی درخواست سن کیوں رہے ہیں، اگرآئی جی اور چیف سیکرٹری سے مسئلہ ہے تو ان کےخلاف درخواست دیں، آپ افراد کےخلاف کاروائی چاہتے ہیں یا الیکشن کمیشن کےخلاف؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا پی ٹی آئی کے قومی و صوبائی اسمبلیوں سے کتنے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے؟ آپ کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کا بتارہے ہیں، منظوری کا بھی توبتائیں، آپ نے لکھا، سوشل میڈیا کے مطابق اتنے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے، کیا پی ٹی آئی کے پاس امیدواروں کےکاغذات منظور یا مسترد ہونے کا ڈیٹا نہیں؟ درخواست میں میجر فیملی لکھا ہے،کیا کوئی میجر انتخابات لڑ رہا ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا جن کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہ اپیل کر دیں گے، آپ چاہتے ہیں سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کا کردار ادا کرے؟
لطیف کھوسہ نے کہا صرف ایک سیاسی جماعت کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا مائیک آپ کی جانب موڑ دیتے ہیں آپ پی ٹی آئی کی سیاسی تقریرکر لیں، آپ ہر بات کے جواب میں سیاسی جواب دے رہے ہیں، یہ قانون کی عدالت ہے، بارہا کہا عدالتیں جمہوریت اور انتخابات کیلئے ہر سیاسی جماعت کے پیچھے کھڑی ہیں۔
وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا آپ مجھے بھی سن لیں میں 55 سال سے وکالت کر رہا ہوں، تین دن سے ریٹرننگ افسرکے آرڈرکی کاپی نہیں ملی تو اپیل کہاں کریں؟ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا الیکشن کمیشن نے 22 دسمبرکے حکم پر 26 دسمبرکو مفصل عملدرآمد رپورٹ دی۔
لطیف کھوسہ نے کہا الیکشن کمیشن کی رپورٹ دیکھنے کیلئے کل تک کا وقت دے دیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہم کیا روز آپ کے کیس سنتے رہیں گے؟ عدالت کوئی اور کام نہ کرے؟ اکھاڑا نہیں یہ عدالت ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا آپ صوبائی الیکشن کمیشن کا خط بھی تو دیکھیں، جس پر جسٹس قاضی فائر عیسیٰ بولے صوبائی الیکشن کمیشن نے خط 24 دسمبرکو لکھا جبکہ عملدرآمد رپورٹ 26 دسمبر کو جمع ہوئی، الیکشن کمیشن نے26 دسمبرکے بعد کچھ کیا ہو تو بتائیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا آپ ویڈیو لگانے دیں، پوری دنیا نے میڈیا پر دیکھا جوپی ٹی آئی کے ساتھ ہوا، چیف جسٹس نے کہا میں نے نہیں دیکھا کیونکہ میں میڈیا نہیں دیکھتا، لطیف کھوسہ بولے ہمارے کارکنان جب کاغذات جمع کرانے گئے تو پولیس نے کمشنر آفس کو سیل کر دیا، چیف جسٹس نے کہا آپ پھر ادھرادھرکی باتیں کر رہے ہیں، الیکشن کمیشن کی بات کریں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا آپ نے الیکشن کمیشن میں جو شکایت درج کرائی وہ دکھائیں جس پر لطیف کھوسہ الیکشن کمیشن میں کی گئی شکایت کی کاپی نہ دکھا سکے، چیف جسٹس بولے آپ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں، الیکشن ہو جائےگا آپ پھر شکایتیں درج کرا لینا، اب بھی وقت ہے، ریٹرننگ افسران کے فیصلے پر ٹریبونل سے رجوع کریں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا الیکشن کمیشن سے کوئی موجود ہے؟ جس پر ڈی جی لاء الیکشن کمیشن روسٹرم پر آگئے اور بتایا کہ تحریک انصاف الیکشن کمیشن آئی، ہم نے انہیں سنا اور حکم نامہ جاری کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیل کا آخری دن کب ہے؟ جس پر الیکشن کمیشن کے نمائندے نے بتایا کہ آج اپیل کا آخری روز ہے، 10 جنوری تک ٹریبونلز فیصلے کریں گے۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ سے کہا آپ کے پاس اپیل کا فورم موجود ہے اسے استعمال کریں، اگر اپیل کے فورم سے ریلیف نہ ملے تو سپریم کورٹ آجائیں۔
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا جو کچھ ہو رہا ہے یہ کبھی ملکی تاریخ میں نہیں ہوا، ملک میں بدترین صورتحال پرکوئی آنکھیں کیسے بند کرسکتا ہے؟
آئی جی، چیف سیکرٹری اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 8 جنوری تک ملتوی کر دی اور کہا کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن کمیشن پنجاب کے خط کے جواب میں ہدایات جاری کی تھیں، بتایا جائے کہ الیکشن کمیشن کی ہدایات پرعملدرآمد ہوا یا نہیں؟