21 جنوری ، 2024
سائفرکیس میں عمران خان کے خلاف استغاثہ کے مقدمے کوٹھیک ٹھاک زک پہنچی ہے کیونکہ اہم گواہ اور سابق وزیراعظم کے سابق سیکریٹری نے عدالتی سماعت کے دوران فوجداری مقدمات کی شقوں 161اور 164 کے تحت ریکارڈ کرائے گئے اپنے پہلے کے بیان کا ایک بہت نرم ورژن پیش کیا ہے۔
اعظم خان نے جمعرات کو عدالت کے سامنے اپنے بیان کے وہ دھماکا خیز حصے شامل نہیں کیے جو انہوں نے ایف آئی اے کو دیا تھا اور مجسٹریٹ کے سامنے دیا تھا۔
ٹرائل کورٹ میں ان کے بیان میں اگرچہ سائفر کی گمشدہ نقل کا تذکرہ تو ہے لیکن اس میں انہوں نے یہ نہیں کہا کہ عمران خان نے اپنے سیاسی فوائد کےلیے یا اعلیٰ فوجی کمان کو نشانہ بنانے کے لیے اس خفیہ دستاویز کا غلط استعمال کیا۔
فوجداری مقدمات کے قوانین کی شق 161 اور 164 کے تحت ریکارڑ کیا گیا ان کا پہلا بیان جو کہ استغاثہ کے مقدمے کا حصہ تھا اور عدالت میں پیش کیا گیا تھااس کا تذکرہ انہوں نے عدالت میں استغاثہ کے گواہ کے طور پر نہیں کیا۔
انہوں نے کہا تھا ’’ میراخیال ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے پاکستانی فوج کی اعلیٰ کمان ( افسروں) کو ٹارگٹ کرکے انہیں دباؤ مین لانے کےلیے منصوبہ بندی کی تاکہ وہ انہیں عدم اعتماد کے ووٹ سے بچاکر انہیں سیاسی فائدہ پہنچانے کےلیے آگے آئیں۔
ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی سائفرسے متعلق غیرآئینی رولنگ کی ہدایت بھی وزیراعظم عمران خان نے دی تھی۔ درحقیقت عمران خان نے سائفر کی سازش میں ہر جگہ اور ہر سطح پر اپنے سیاسی اور ریاست مخالف محرکات کےلیے کوششیں کیں۔ نتیجتاً عمران خان نے سائفرٹیلیگرام/ دستاویز 27 مارچ 2022 کے اسلام آباد کے جلسے میں لہرائی جس کے بارے میں انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ گم ہوگیا ہے۔ ایک کلاسیکی خفیہ دستاویز کا یہ خطل استعمال وزیراعظم عمران خان نے سیاسی مقاصد کےلیے کیا تھا اور یہ عوامی عہدے کےلیے ان کی جانب سے اعتماد کی خلاف ورزی تھی جو کہ پاکستان کی فارن پالیسی کے مفادات پر پاکستان کےلیے کمپرومائزنگ حالت میں لے آیا۔
میری رائے میں اس قسم کے اقدام کے ذریعے عمرام خان نے فوج کی صفوں کے دماغوں میں اپنی اعلیٰ کمان پرشک کے بیج بوئے اور یہ کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے سائفر کی سازش کو سیاسی سرمایہ بنانے کےلیے استعمال کیا یہ خیال کیے بغیر کہ ریاستی اداروں کی حرمت کا کیا ہوگا اور انہوں نے اپنے حامیوں کوریاست مخالف ایجنڈے کےلیے اور سیاسی مفادات کے لیے چارج کر دیا۔
یہ وہ حصہ ہے جو اعظم خان کے پہلے بیان میں تھا اور جو ٹرائل کورٹ میں ان کے بیان میں شامل نہیں تھا اور ان کے بیان کا یہی حصہ عمران خان کے خلاف سائفر کیس کا کلیدی عامل تھا۔
نوٹ: یہ خبر آج 21 جنوری 2024 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی ہے