26 جنوری ، 2024
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی امیدوار کے کاغذات مسترد کیے جانے کے خلاف کیس کی سماعت میں جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ انتخابات میں حصہ لینا بنیادی حق ہے، کسی شخص کو انتخابات کے بنیادی حق سے محروم کرکے سزا دے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی رہنما عمر اسلم کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیل پر سماعت کی جس سلسلے میں عمر اسلم کے وکیل بیرسٹر علی ظفر، مخالف فریق اور الیکشن کمیشن حکام عدالت میں پیش ہو ئے۔
جسٹس منصور نےسوال کیا کہ عمر اسلم کے کاغذات نامزدگی کیوں مسترد ہوئے؟کیا عمر اسلم اشتہاری ہیں؟ اس پر علی ظفر نے بتایا کہ عمر اسلم حفاظتی ضمانت حاصل کرکے ضمانت قبل ازگرفتاری پر ہیں، ان کی انتخابات لڑنےکی ایک آئینی درخواست مسترد اور دوسری منظور ہوئی۔
جسٹس منصور نے سوال اٹھایا کہ مفرور یا اشتہاری کو انتخابات لڑنے سےکون سا قانون روکتا ہے؟ اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ مفرور یا اشتہاری قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے اس لیے انتخابات نہیں لڑ سکتا۔
جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ انتخابات میں حصہ لینا بنیادی حق ہے، کسی شخص کو انتخابات کے بنیادی حق سے محروم کرکے سزا دے رہے ہیں، کسی کو انتخابات میں حصہ لینے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ منتخب نمائندوں کےلیے پاکستان کی عوام کو فیصلہ کرنے دیں، آرٹیکل 17، 62 اور 63 کی کون سے شق مفرور کو انتخابات کے بنیادی حق سےروکتی ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا کہ کون اشتہاری ہے یا عدالتیں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن پاکستان کے عوام کو جوابدہ ہے یا امیدواروں کو؟ الیکشن کمیشن نے پاکستان کی عوام کو جواب دینا ہے۔
دوران سماعت الیکشن کمیشن حکام نے عدالت کو بتایا کہ بیلٹ پیپرز چھپنا شروع ہوچکے اب تبدیلی ممکن نہیں ہو گی، اس پر جسٹس اطہر نے کہا کہ بیلٹ پیپر چھپنا شروع ہوگئے تو کیا امیدواروں کو بنیادی حق سے محروم کر دیں؟
جسٹس منصور نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ عدالتوں میں کیسز آئیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے عمر اسلم کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔