26 جنوری ، 2024
عالمی عدالت انصاف نے اپنے عبوری فیصلے میں قرار دیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کیے جانے کے جنوبی افریقا کے عائد کردہ الزامات میں سے کچھ درست ہیں ، اسرائیل غزہ میں انسانی امداد کی اجازت دے۔
عالمی عدالت انصاف کے17رکنی پینل میں سے16 ججز موجود تھے اور صدر عالمی عدالت انصاف نے عبوری فیصلہ سنایا۔
عالمی عدالت انصاف کے 15 ججوں نے فیصلے کی حمایت اور 2 نے مخالفت کی جبکہ عالمی عدالت انصاف کے ہنگامی احکامات 2-15 کی اکثریت سے منظور ہوئے۔
عالمی عدالت انصاف نے عبوری فیصلے میں کہا کہ حماس حملے کے جواب میں اسرائیلی حملوں میں بہت جانی اور انفرااسٹرکچر کا نقصان ہوا ہے، اقوام متحدہ کے کئی اداروں نے اسرائیلی حملوں کے خلاف قراردادیں پیش کی ہیں۔
عالمی ادارہ انصاف نے غزہ میں انسانی نقصان پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں میں بڑے پیمانے پرشہریوں کی اموات ہوئیں اور عدالت غزہ میں انسانی المیے کی حد سے آگاہ ہے۔
عالمی عدالت انصاف نے قرار دیا کہ جنوبی افریقا کے عائد کردہ الزامات میں سے کچھ درست ہیں اور اسرائیل کے خلاف نسل کشی مقدمےمیں فیصلہ دینا عدالت کے دائرہ اختیار میں ہے۔
عالمی عدالت انصاف نے غزہ نسل کشی کیس معطل کرنے کی اسرائیل درخواست مسترد کر دی اور قرار دیا کہ اسرائیل کیخلاف نسل کشی کیس خارج نہیں کریں گے، اسرائیل کے خلاف نسل کشی کیس کے کافی ثبوت موجود ہیں، اسرائیل کے خلاف کچھ الزامات نسل کشی کنونشن کی دفعات میں آتے ہیں۔
عالمی عدالت انصاف نے کہا کہ غزہ تباہی کی داستان بن چکا ہے، اقوام متحدہ کے مطابق غزہ رہنے کے قابل نہیں رہا، 7 اکتوبرکے بعد غزہ میں بڑے پیمانے پرتباہی ہوئی، ہزاروں افراد جاں بحق اور 63 ہزار سے زائد زخمی ہوئے، اسرائیل کے فوجی حملوں کی وجہ سے غزہ میں ہلاکتیں، تباہی اور نقل مکانی ہوئی ہے، 9 اکتوبر کو اسرائیلی وزیردفاع نے غزہ کے محاصرے اور بجلی پانی بند کرنے کا اعلان کیا۔
عالمی عدالت نے قرار دیا کہ فلسطینیوں کو عالمی انسداد نسل کشی معاہدوں کے تحت مکمل تحفظ حاصل ہے، عدالت غزہ میں فلسطینیوں کو نسل کشی کی کارروائیوں سے محفوظ رکھنے کے حق کو تسلیم کرتی ہے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ غزہ میں اسپتالوں پربھی حملے کیےگئے، غزہ کے بچے نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں، غزہ کی 20لاکھ سے زائد آبادی نفسیاتی اورجسمانی تکالیف میں مبتلا ہے۔
عدالتی فیصلے کے متن کے مطابق عالمی عدالت کے پاس نسل کشی کیس میں ہنگامی احکامات جاری کرنے کا اختیار ہے، نسل کشی کیس میں حتمی فیصلہ سنائے بغیر عبوری اقدامات کے احکامات جاری کیے جا سکتے ہیں۔
عالمی عدالت انصاف نے نسل کشی کنونشن پر عمل درآمد کے لیے اسرائیل کو ہنگامی احکامات جاری کر تے ہوئے نسل کشی کرنے والے اقدامات سے روک دیا۔
عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو غزہ میں انسانی صورتحال بہتر بنانے کا حکم دیا اور کہا کہ غزہ پٹی کے شہریوں کو موجودہ نامساعد حالات اور بحران سے نکالنے کیلئے اسرائیل اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور ایک ماہ میں غزہ کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے کیے گئے اقدامات پررپورٹ پیش کرے۔
عالمی عدالت نے کہا کہ اسرائیل پابند ہے اُس کی فوج غزہ میں نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی نہ کرے، غزہ کی پٹی کے تمام فریق بین الاقوامی قانون کے پابند ہیں۔
خیال رہے کہ عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقا نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا الزام اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے مقدمہ دائر کیا تھا۔ 11 اور 12 جنوری کو ہونے والی سماعت میں جنوبی افریقا اور اسرائیل نے دلائل پیش کیے تھے۔
جنوبی افریقا نے سماعت کے دوران اسرائیل کے خلاف اقدامات کی استدعا کی تھی۔
جنوبی افریقا کا عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل پر اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے کہناتھا کہ حماس کی 7 اکتوبر کی کارروائی بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کا جواز پیش نہیں کر سکتی۔
جنوبی افریقا کا کہنا تھاکہ اسرائیل کی بمباری کا مقصد ’فلسطینیوں کی زندگی کو تباہ کرنا‘ ہے اور اس نے فلسطینیوں کو ’قحط کے دہانے پر‘ دھکیل دیا ہے۔
اس دوران اسرائیل نے عالمی عدالت انصاف میں شہری نقصان کا ذمہ دارحماس کوقرار دیا۔
اسرائیل کا کہنا تھا کہ جنوبی افریقا نے عدالت کے سامنے انتہائی مسخ شدہ غیرحقیقی اور غیرقانونی تصویر پیش کی، وہ اسرائیل کے خلاف نسل کشی کی اصطلاح کو ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
گزشتہ برس حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد غزہ میں سویلین آبادی پر اسرائیلی حملوں پر جنوبی افریقا نے الزام لگایا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کر رہا ہے۔
حماس کے زیر انتظام فلسطینی وزارت صحت کے مطابق حماس کی کارروائی کے بعد غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے اب تک 26 ہزار سے زائد افراد جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں شہید ہو چکے ہیں۔
جنوبی افریقا کی طرف سے جمع کرائےگئے شواہد میں کہا گیا کہ اسرائیلی کارروائی کا مقصد فلسطینی قومی اور نسلی گروہ کے ایک بڑے حصے کو تباہ کرنا ہے۔
اس مقدمے میں اسرائیلی عوامی بیان بازی اور وزیر اعظم نیتن یاہو کے فلسطینیوں کی "نسل کشی کے ارادے" کے بیانات کو بھی ثبوت کے طور پیش کیا گیا ہے۔
بین الاقوامی قانون کے تحت، نسل کشی کی تعریف کسی قومی، نسلی، مذہبی گروہ کو مکمل طور پر یا جزوی طور پر تباہ کرنے کی نیت سے ایک یا زیادہ کارروائیوں کے ارتکاب سے کی جاتی ہے۔
جنوبی افریقا میں حکمران جماعت افریقن نیشنل کانگریس کی فلسطینی کاز کے ساتھ یکجہتی کی ایک طویل تاریخ ہے۔
جنوبی افریقا نے7 اکتوبر کے بعد غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی پر سخت تنقید کی ہے۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے 1948 کے نسل کشی کنونشن کے دستخط کنندہ کے طور پر، فریقین پر عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل کرنا لازم ہے۔