Time 11 فروری ، 2024
بلاگ

وزیر اعظم کون؟

دنیائے صحافت میں علم وقلم کے تاجدار ہارون الرشید نے ٹویٹ کی کہ ’’اس پروردگار کو حاضر ناظر جان کر جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں پورا اطمینان کرنے کے بعد آپ کو بتا رہا ہوں کہ کم از کم 40سے 50سیٹوں پر انتخابی نتائج تبدیل کیے گئے ہیں۔ اس الیکشن میں دھاندلی نہیں ہوئی۔ بلکہ ڈاکہ زنی کی گئی ہے‘‘۔ 

اس کے بر عکس پی ٹی آئی نے رات چار بجے اپنے نتائج جاری کر دئیے تھے۔ ’’پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ٹوٹل 265سیٹوں پہ فارم 45 کے مطابق نتائج جاری کیے جاتے ہیں۔ پنجاب میں ایک سو نو نشستوں پرکامیابی ہوئی۔ خیبر پختون خوا میں بیالیس نشستوں پر پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ بلوچستان میں چار نشستوں پر۔ سندھ میں اکیس نشستوں پر اور اسلام آباد میں تین نشستوں پر کامیابی ہوئی۔الحمدللہ یہ ٹوٹل 179نشستیں بنتی ہیں، یعنی پاکستان تحریک انصاف نے دو تہائی اکثریت حاصل کر لی ہے‘‘۔ الیکشن کمیشن نے چونکہ سرکاری نتائج اگلے دن بھی جاری نہیں کیے اور پھر جب جاری کیے تو وہ ان نتائج کے برعکس تھے جو الیکشن کے اختتام پر پولنگ ایجنٹس اپنے ساتھ لائے تھے۔

 اس لئے پی ٹی آئی ملک بھر کے تمام حلقوں کے پولنگ ایجنٹس سے الیکشن کے وقت جاری ہونے والے فارم کی تصویریں جمع کر رہی ہے کہ انہیں ویب سائٹ پر آویزاں کر دیا جائے تاکہ پتہ چلتا رہے کہ کس وارڈ میں کس پولنگ اسٹیشن پر کس امیدوار نے کتنے ووٹ لیے تھے۔ باوجود اس کہ نتائج پر اختلافات شدید ہیں، پی ٹی آئی نے الیکشن کے نتائج پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ پہلی بار محسوس ہوا ہے کہ عوام میں کوئی تقسیم نہیں اور نہ ہی کوئی سیاسی دراڑ ہے۔ ملک کے دو تہائی عوام بالکل ایک طرح سے ملک کی بہتری کیلئے سوچ رہے ہیں۔ غالباً الیکشن کمیشن عوامی رائے کو تسلیم کرنے پر ابھی تیار نہیں مگر کب تک۔

عوام جانتے ہیں کہ ایک پولنگ اسٹیشن میں پر زیادہ سے زیادہ ہزار پندرہ سو ووٹ پول ہوتے ہیں۔ گھنٹہ ڈیڑھ میں نتیجہ تیار ہو جاتا ہے۔ ہر امیدوار کو سات آٹھ بجے رات علم ہو جاتا ہے کہ اس نے کتنے ووٹ حاصل کیے۔ رزلٹ کا سلسلہ رک ہی نہیں سکتا۔ جہاں تک موبائل فون کے بند ہونے کی بات ہے تو پورے ملک کے انتخابات پر ان کی وجہ سے کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ 

پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اپنے حلقے کے تمام گھروں سے اپیل کی تھی کہ الیکشن والے دن اپنے گھروں میں لگے ہوئے وائی فائی انٹرنیٹ کا پاسورڈ ختم کردیں تاکہ کوئی بھی استعمال کرسکے اور یہی ہوا۔ موبائل کے ہاٹ سپاٹ سے کنکشن در کنکشن پھیلتے چلے گئے اور کہیں یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوا کہ موبائل فون بند ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ ٹیلی ویژن چینل پر غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کا اعلان ہے۔ صرف دو نشستوں پر بات کرلیتے ہیں ایک جس میں یاسمین راشد کی کامیابی ہوئی اور دوسری نشست جس میں ریحانہ ڈار تقریباً پچاس ہزار کی برتری سے کامیاب ہوئیں۔ یہ دونوں رزلٹ ایک نہیں کئی چینل سنا چکے تھے مگر اگلے دن جب ان نشستوں پر نواز شریف اور خواجہ آصف کی کامیابی کی خبر ملی تو الیکشن کمیشن کے سامنے پڑے ہوئے سوالیہ نشان پھیل کر مزید بڑے ہو گئے۔

میں نے ایک ووٹر سے پوچھا کہ تم جانتے تھے کہ جن لوگوں کو تم ووٹ دے رہے ہو۔ ان دنوں وہ معتوب ہیں ان کو کون حکومت بنانے دے گا۔ تم لوگوں نے اپنا ووٹ کیوں ضائع کیا ہے۔ وہ ہنسا اور کہنے لگے۔ ’’زبانِ خلق کو نقارہ ِ خدا کہتے ہیں۔ ہم نے کچھ لوگوں کو صرف یہ بتانے کی کوشش کی کہ خدا کا نقارہ کیا کہہ رہا ہے۔ اس وقت جو لوگ جتوا دیے گئے ہیں وہ خود یہ جانتے ہیں کہ وہ ہار چکے ہیں۔ یہی بہت بڑی بات ہے‘‘۔

پی ٹی آئی کے عام ووٹر سے میں نے پوچھا کہ اب کیا ہوگا تو بڑے ڈھیلے ڈھالے انداز میں بولا ’’دمادم‘‘۔ پھر یہی سوال میں نےنون لیگ کے ووٹر سے پوچھا کیا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ نواز شریف وزیر اعظم بن گئے تو ملک کے حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ کہنے لگا۔ ’’ہم لوگ نسل درنسل مسلم لیگ کو ووٹ دیتے آ رہے ہیں۔ میں نواز شریف کا بہت ماننے والا ہوں انہوں نے بڑے مشکل حالات میں بہتر فیصلے کیے مگر موجودہ صورت حال میں خود ان کو بھی عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔ 

ممکن ہے ایسا کرنے سے نہ صرف ملک کے حالات بہتر ہوجائیں بلکہ آنے والے وقت میں مریم نواز وزیراعظم بن جائیں‘‘۔ میں نے کہا انہوں نے جو مل کر حکومت بنانے کی بات کی ہے۔ کہنے لگا ’’بڑی اچھی بات کی ہے مگر وہ یہ بات اگر قیدی نمبر آٹھ سو چار سے کرتے تو کوئی رزلٹ نکل بھی سکتا تھا‘‘۔ میں نے ایک نئی سیاسی جماعت کے لیڈر سے پوچھا کہ آپ کیا سوچتے ہیں، کیا تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں تو کوئی حل نکل سکتا ہے۔ وہ بولا ’’عوام نے جنہیں ووٹ دیا ان سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں تو مسترد کر دیا ہے عوام نے۔ قیدی نمبر آٹھ سو چار کو جس جس نے چھوڑا ہے۔ اسے کسی نے ووٹ نہیں دیا۔ محمود خان سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک، جہانگیر ترین جیسے لوگ ہار گئے ہیں‘‘۔ میں نے پھر انہی سے پوچھا کہ نون لیگ کے اگر ہارے ہوئے لوگ جیت سکتے تھے تو انہیں جتوانے کی کوئی سبیل نکل سکتی تھی۔ وہ ہنسا اور بولا۔ جاننے والے سوچتے ہیں کہ جو اس کے نہیں بنے جس نے انہیں زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیا تھا، ہمارے کیا بنیں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔