دنیا
Time 14 فروری ، 2024

دنیا کی تیسری سب سے بڑی جمہوریت انڈونیشیا میں انتخابات کیلئے پولنگ، ووٹوں کی گنتی جاری

17 ہزار جزائر پر مشتمل ملک انڈونیشیا میں 20 کروڑ سے زائد ووٹر انتخابی عمل میں حصہ لے رہے ہیں— فوٹو رائٹرز۔
17 ہزار جزائر پر مشتمل ملک انڈونیشیا میں 20 کروڑ سے زائد ووٹر انتخابی عمل میں حصہ لے رہے ہیں— فوٹو رائٹرز۔

آبادی کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے مسلمان ملک اور دنیا کی تیسری سب سے بڑی جمہوریت انڈونیشیا میں عام انتخابات کے لیے پولنگ کا وقت مکمل ہونے کے بعد  ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے۔

انڈونیشیا کے صدارتی، پارلیمانی اور بلدیاتی انتخابات کیلئے پولنگ کا عمل مقامی وقت کے مطابق صبح 7 بجے شروع ہوا جو 6 گھنٹے جاری رہنے کے بعد مقامی وقت کے مطابق دوپہر  ایک بجے ختم ہو گیا۔

انڈونیشیا میں صدر اور اس کے نائب پر مشتمل امیدوار کے پیئر کو ووٹ دیا جاتا ہے، صدارتی امیدواروں اور ان کے 3 نائب صدارتی امیدواروں پر سب کی نظریں مرکوز ہیں۔

انتخابات میں انیس راشد بسویدان، پروبووہ سوبی آنتو اور گنجر پرانووہ صدارتی امیدوار ہیں جبکہ  میوہیمین اسکندر،جبران راکابُومنگ اور محفوظ ایم ڈی نائب صدارتی امیدوار کے طور پر میدان میں موجود ہیں۔

حالیہ انتخابات میں تقریباً 17 ہزار جزائر پر مشتمل 27 کروڑ آبادی والےملک انڈونیشیا میں  ووٹرز کی تعداد 20 کروڑ 40 لاکھ سے زائد ہے جن کیلئے 8 لاکھ پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق رجسٹرڈ ووٹروں کی اکثریت نوجوانوں کی ہے جن میں تقریباً 55 فیصد کی عمریں 17 سے 40 سال کے درمیان ہیں۔

امریکی جریدے نیویارک ٹائمز کے مطابق انڈونیشیا میں 1990 کی دہائی کے وسط تک آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا مگر 1998 میں صدر سہارتو کی طویل آمرانہ حکومت کے خاتمے کے بعد انڈونیشیا دنیا کی تیسری بڑی جمہوریت کے طور پر ابھرا ہے۔

جمہوری عمل کا حصہ بننے کے بعد انڈونیشیا میں ووٹر ٹرن آؤٹ مسلسل زیادہ رہا ہے اور 2019 میں یہ 80 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق انڈونیشیا میں جمہوریت کی جڑیں اتنی مضبوط نہیں اور زیادہ تر ووٹر امیدواروں کو ان کے خیالات اور ماضی کی کارکردگی پر ووٹ نہیں دیتے بلکہ جسے فیملی ووٹ دینے کیلئے چنتی ہے اس کو ووٹ دیتے ہیں۔

تجزہ کاروں کے مطابق لیکن اس صورتحال میں اب تبدیلی آرہی ہے اور ووٹر اب سوال کر رہے ہیں جبکہ حالیہ انتخابات میں سیاسی تبصروں میں جمہوریت اور دفاع جیسے معاملات پر بھی بات ہو رہی ہے۔

مگر اس کے ساتھ ساتھ انڈونیشیا کے ایک بار پھر آمرانہ دور کی جانب بڑھنے کے خدشے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے جس کی وجہ موجودہ صدر جوکو ودودو کی جانب سے اپنے بیٹے کو نائب صدارتی امیدوار کے طور پر کھڑا کرنے اور غیر اعلانیہ طور پر صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے سابق فوجی جرنل پرابوو سوبیانتو کی حمایت کرنا ہے، جن پر ماضی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

مزید خبریں :