21 فروری ، 2024
اسلام آباد: پیپلز پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی نے کہا ہےکہ پی پی فی الحال کابینہ کا حصہ نہیں ہوگی اور کابینہ کی تشکیل شہباز شریف کی صوابدید ہے۔
جیونیوز کے پروگرام جیو پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنر پیپلز پارٹی کے ہوں گے جب کہ سندھ اور بلوچستان کے مسلم لیگ (ن) سے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ سیاست میں 5 سالہ معاہدہ نہیں لکھ سکتے، فی الحال پیپلز پارٹی کابینہ کا حصہ نہیں ہوگی، پی پی وزیراعظم کے لیے ووٹ، اعتماد کا ووٹ اور اسپیکر کا ووٹ دے گی، حکومت کو قانون سازی میں سپورٹ کریں گے، ہم تنقید برائے اصلاح کریں گے، تنقید برائے تنقید نہیں کریں گے۔
فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ ابھی لوگوں کی نظریں بجٹ اور آئی ایم ایف میں ہیں، نظر آئے گا حکومت کی مجبوری ہے تو سپورٹ کریں گے، ورکنگ ریلیشن پر دونوں جماعتوں کی کمیٹی بھی بن رہی ہے، کمیٹی کو اعتماد میں لیں گے اور کمیٹی پارٹی کو اعتماد میں لے گی، مل بیٹھ کر چیزیں کریں گے۔
پی پی رہنما نے مزید کہا کہ شہباز شریف وزیراعظم ہوں گے اور ان کی صوابدید ہے کہ کسے کابینہ کا حصہ بنائیں اور کسے نہ بنائیں، وہ کسی کو بھی کابینہ میں شامل کریں یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ پی ڈی ایم میں 16 ماہ کا تجربہ اچھا نہیں تھا، اب شہباز شریف نے لیڈ کرنا ہے، امید کرتے ہیں وہ بہتر طریقے سے لیڈ کریں گے۔
فیصل کریم نے کہا کہ پارٹی جلد گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کے نام شیئر کرے گی اس سلسلے میں مایوس نہیں کریں گی، آج یا کل میں سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ کا نام دے دیں گے۔
اس سے قبل جیونیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ 16 مہینے بلاول پارٹی کو ٹائم نہیں دے سکے، وہ وزیرنہیں ہوں گے تو وقت دے سکیں گے، ہم ملک کو معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام سے نکالنا چاہتے ہیں، مشکلات میں (ن) لیگ کو سپورٹ کریں گے، ہم (ن) لیگ کو بلیک میل نہیں کریں گے، ساری ذمہ داری شہبازشریف پر ہوگی کہ وہ کس طرح سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ہماری ایک مجبوری ضرور ہے کہ نظام ڈی ریل نہ ہو، ہم نہیں چاہتے نظام ڈی ریل ہو، ہم نہیں چاہتے کہ پارلیمنٹ ٹوٹے، نہیں چاہتے کہ معاملات دوبارہ الیکشن کی طرف جائیں، ہم نہیں چاہتے معاملات بے یقینی کی دلدل میں چلے جائیں جس دن قومی اسمبلی کا اجلاس ہوگا اس دن بڑی جماعت کون ہے اس کا تعین ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے پی ٹی آئی کے چار، پانچ اراکین اپنے حلف نامے سے مکر جائیں، ہوسکتا ہے وہ 92 کے 92 برقرار رہیں البتہ یہ شرائط منوانے یا مسلط کرنے کا وقت نہیں، یہ کچھ دو اور کچھ لو کا وقت ہے، اگر آپ کچھ دے نہیں سکتے صرف شرائط دے سکتے ہیں، ذمہ داری بھی نہیں لے رہے کوئی ملبہ بھی اپنے سر نہیں لینا چاہتے، پھر تو ایسا ہی ہے جیسے (ن) لیگ کو آپ قربانی کا بکرا بناکر ہار سنگھارکرکے ماتھے پر تلک لگا کر مہندی لگا کرآپ قربان گھاٹ کی طرف لے جائیں، وہ قربان تو ہوجائے گی لیکن کیا سسٹم بچ جائے گا۔