سپریم کورٹ میں ذوالفقار بھٹو کیس کا ٹرائل دوبارہ نہیں ہو سکتا: عدالتی معاون

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس کیس کی سماعت کی__فوٹو: اسکرین گریب
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس کیس کی سماعت کی__فوٹو: اسکرین گریب

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس تاریخ کا وہ واحد فوجداری فیصلہ ہے جو 935 صفحات پر مشتمل ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔ 

جسٹس طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بھی لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ دیگر معاونین کے برعکس کچھ کہنا چاہتے ہیں تو بتا دیں جس پر عدالی معاون سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ میں نے تحریری طور پر بھی معروضات پیش کی ہیں، سابق وزیرِ اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کیس کا ٹرائل شفاف انداز میں نہیں چلایا گیا، سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کیس کا ٹرائل دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا، سپریم کورٹ اس حد تک ضرور قرار دے سکتی ہے کہ بھٹو کیس غلط طریقے سے چلایا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس کے میرٹ پر نہیں جا سکتی جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کی پابند ہے۔

عدالتی معاون خالد جاوید خان نے کہا کہ سیاسی مقاصد کے علاوہ دیگر معاملات پر عدالت رائے دینے کی پابند ہے، جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ میرے خیال میں عدالت بھٹو کیس میں صرف ٹرائل شفاف ہونے کی حد تک دیکھ سکتی ہے۔

خالد جاوید خان نے کہا کہ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہو گا پوری ریاستی مشینری آمر ضیا الحق کے کنٹرول میں تھی، لاہور ہائیکورٹ کے جج آفتاب احمد نے کہا تھا ذوالفقار بھٹو اچھے مسلمان نہیں، ہائیکورٹ کے جج کو کسی کے اچھے مسلمان ہونے پر بات کرنے کی کیا ضرورت تھی، اچھا مسلمان ناہونے کی بات بھی سپریم کورٹ کے نوٹس میں آئی، سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے جج کی آبزرویشن کی نفی نہیں کی، سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے جج کی بات کو غلط نہیں کہا۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائیکورٹ کے جج نے ایسی بات کی تھی؟ اگر عدالت غلطی کرے تو اسلام کیا کہتا ہے؟ ہمیں سمت کو ٹھیک کرنا چاہیے۔

خالد جاوید خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ موجود ہے جس میں ہائیکورٹ کے جج کی آبزرویشن کا ذکر ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس تاریخ کا وہ واحد فوجداری فیصلہ ہے جو 935 صفحات پر مشتمل ہے، کیا کبھی ایسا طویل فوجداری فیصلہ لکھا گیا ہے تو بتائیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تفصیلی فیصلے سے لگتا ہے جن ججز نے فیصلہ دیا وہ خود بھی متفق نہیں تھے اس لیے اتنی تفصیل لکھی جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ ذوالفقار علی بھٹو کیس کا ٹرائل دوبارہ کیسے دیکھ سکتی ہے؟ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے تو کس طریقے سے سپریم کورٹ اب دوبارہ جائزہ لے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کسی بھی عدالت کے فیصلے کا جائزہ لے سکتی ہے، ججز کی آزادی اور ان پر ریاستی دباؤ ہو تو اس بات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ بھٹو کیس میں ٹرائل کی شفافیت دیکھی جا سکتی ہے مگر طریقہ کار کا بتایا جائے، ایک صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ فوجداری کیس کا ٹرائل کیسے دوبارہ کھولے۔

عدالتی معاون خالد جاوید خان نے کہا کہ مارشل لا دور میں ججز آزاد نہیں تھے، جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ میں مانتا ہوں کہ ججوں پر پریشر تھا لیکن اس کیس کو کیسے سنا جاسکتا ہے، عدالتی ریکارڈ پر ایسا مواد دکھائیں جس سے ثابت ہو ججز پر دباؤ تھا یا تعصب پر فیصلہ کیا گیا، ایسے تو کہا جائے گا ہر کیس کھولا جائے۔

مزید خبریں :