27 فروری ، 2024
کوئی کچھ بھی کہہ لے، انتخابات کے بعد بھی ہمہ پہلو عدم استحکام اور سیاسی انتشار کی بنیادی وجہ ہماری قومی سیاست میں ایک ایسے آتش مزاج کردار کی نمود ہے جو اپنی عادت، خصلت، جبلّت اور سرشت کے اعتبار سے سیاسی تقاضوں اور قرینوں سے دُور کا تعلق واسطہ بھی نہیں رکھتا۔
نرگسیت (NARCISSISM) ایک موذی مرض ہے جو آکاس بیل کی طرح انسان کی ہر شاخِ فکر واحساس کو چوس لیتا ہے۔ عمران خان ہماری ستتر سالہ قومی تاریخ کا واحد کردار ہیں جو ملکی مفادات سے قطعِ نظر، اپنی ذات کے مدار میں گردش ہی کو معراجِ سیاست سمجھتے ہیں۔ اٹھائیس سالہ سیاسی سفر کے دوران اُن کی آتش بیانی، بارودپاشی، تصادم وپیکار، ہنگامہ وفساد اور انتشار وخلفشار کے لاتعداد مظاہر ملیں گے لیکن خوردبینی آنکھ سے بھی اُن کی نرم گفتاری، کشادہ قلبی، عالی ظرفی، تحمل وبرداشت ، رواداری اور افہام وتفہیم کی کوئی ادنیٰ سی نظیر بھی نہیں ملے گی۔
اسلامی تعلیمات سے انحراف اور گناہوں کے باوجود کسی کلمہ گو سے ’’مسلمان‘‘ ہونے کا شرف نہیں چھینا جاسکتا نہ اس کے ’جذبۂِ اسلامی‘ کی نفی کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح آئی۔ایم۔ایف کے قرض کو پاکستان کے انتخابی عمل کی جانچ پڑتال سے مشروط کرانے کی کوشش سے عمران خان کی ’’ حُبّ الوطنی ‘‘ یا پاکستانیت پر کوئی حرف نہیں آتا۔
لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا واقعی انہوں نے اٹھائیس سالہ سیاسی زندگی میں حُبّ الوطنی کے تقاضوں کو اپنی سیاست اور ذات سے بالاتر رکھا ہے؟سیاسی لُغت میں نامطلوب مکروہات کی پیوندکاری، عوامی جلسوں میں حریفوں پر بارشِ الزام ودشنام، معتبر قومی راہنمائوں کو بے ڈھنگے القابات سے نوازنا، نوجوان پود کی رگوں میں بارود بھرنا، سیاسی مخالفین کو چُن چُن کر نشانہ بنانا اور کشتِ سیاست میں نفرت وعداوت کے بیج بونا وہ اقدامات ہیں جن کو سرِدست ایک طرف رکھ دیتے ہیں لیکن کیا واقعی آئی۔ایم۔ایف کے حضور تازہ عرضی گزارنے سے قبل خان صاحب نے کبھی اس نوع کا کوئی قدم نہیں اٹھایا؟ کیا تحریکِ عدم اعتماد کی چاپ سُن کر انہوں نے جان بوجھ کر آئی۔ایم۔ایف سے طے شدہ شرائط کو پامال کرکے آنے والی حکومت کے لئے شدید مشکلات پیدا نہیں کردی تھیں؟ اگست 2022میں خان صاحب ہی کی ہدایت پر سینیٹر شوکت ترین نے خیبرپختون خوا اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ سے کہا تھا کہ وہ آئی۔ایم۔ایف کو خط لکھ کر اپنی طرف سے بریت کا اظہار کردیں تاکہ متوقع پروگرام کا راستہ روکاجاسکے۔
خان صاحب ہی کے حکم پر فواد چوہدری نے دوٹوک بیان دیا تھا کہ اگر آئی۔ایم۔ایف نے پاکستان کو قرض دیا تو خیبرپختون خوا اور پنجاب ذمہ داری نہیں لیں گے۔ محض اپنی سیاست کے لئے قومی سلامتی سے متعلق ایک حساس خفیہ دستاویز سے کھیلنا قومی مفاد کے کس گوشۂِ خاص میں سجایاجائے؟ 2014کے چار ماہی دھرنے کے دوران انہوں نے جان بوجھ کر صرف اس لئے چینی صدر کے دورۂِ پاکستان کو سبوتاژ کیا کہ بھاری چینی سرمایہ کاری سے نوازحکومت کو تقویت نہ ملے۔ انہی دھرنوں میں عوام کو ٹیکس نہ دینے اور سول نافرمانی کی تلقین کی گئی۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں سے کہا گیا کہ وہ ہُنڈی کے ذریعے رقوم بھیجیں تاکہ پاکستان زرمبادلہ کے قحط کا شکار ہوجائے۔ ان کے وزراکے بے ڈھنگے بیانات نے سی پیک منصوبے کو شدید نقصان پہنچایا اور پائیلٹس کے بارے میں ایک احمقانہ بیان کے سبب پی۔آئی۔اے کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ یہ ’’صدمۂِ جاریہ‘‘ جانے کب تک چلے گا۔
حالیہ انتخابات نے ان کے سامنے، تُند خوئی اور تلوارزنی کے بجائے حکمت ودانش اور مصلحت کیش گریز پائی کی کئی راہیں کھول دی تھیں۔ اُن کے چاہنے والوں نے اُنہیں مالا مال کردیا تھا۔ افسوس کہ یہ توشہ خانہ بھی انہوں نے کوڑیوں کے مول لٹادیا۔ نتائج کی برکھا برس رہی تھی کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے ہاتھ نہ ملانے کا اعلان کر کے اپنے ارکان کی بھاری بھرکم تعداد کو بے وزن کردیا۔ اس اعلان سے اُن کے دونوں بڑے حریف ایک دوسرے کے قریب ہوگئے۔یکایک سیاسی تنہائی کا احساس ہوا تو جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، وحدت المسلمین غرض ہر اُس کوچۂِ رقیب میں سر کے بل پہنچے جہاں سے اپنی بے چہرگی کو کوئی نام پانے کی ذرا سی بھی توقع ہوئی۔ بالآخر اَسّی کے لگ بھگ ارکان کا دریا، یک رُکنی سُنّی اتحاد کونسل کی جُوئے کم آب میں ضم ہوکر معدوم ہوگیا۔
اب قومی اسمبلی میں ’تحریک انصاف‘ کی شناخت رکھنے والا کوئی رُکن نہیں ہوگا۔ اسے پَرلے درجے کی بے ہُنری ہی کہاجاسکتا ہے۔ خیبرپختون خوا اسمبلی میں پچپن نئے چہرے آئے ہیں۔ ان میں کئی ایک معتدل، متوازن اور متحمل بھی ہوں گے۔ لیکن خان صاحب کی نگاۂِ انتخاب علی امین گنڈا پور ہی پر جا ٹِکی جنہوں نے ابھی تک حلف بھی نہیں اٹھایا لیکن اعلان کیا ہے کہ ’’فضل الرحمن پاگل ہوگیا ہے۔ میں آتے ہی اُسے پاگل خانے میں ڈالوں گا۔‘‘ نرگسیت زدہ لیڈر کی خُوئے پیکار بدستور پھَن پھیلائے کھڑی ہے اور پارلیمنٹ کے ایوان کو اوجڑی کیمپ بنانا منتہائے مقصود ٹھہرا ہے۔
اُدھر دھاندلی کے الزامات کا کوہ ہمالیہ کھڑا کردیاگیا ہے۔ 2013 کے 35 پنکچر اَب فارم 45 میں ڈھل چکے ہیں۔ پنڈی کمشنر کو گیارہ برس قبل کا افضل خان بنانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ تب بیلٹ پیپر کسی اردو بازار میں چھپ رہے تھے اب یہ کام لکشمی چوک کے کسی چھاپہ خانے میں ہورہا ہے۔ جھوٹ کا طومار ہے اور الزامات کا انبار۔ کوئی حقیقت کی کرید پر آمادہ نہیں۔ انتخابات سے ایک ماہ قبل معتبر ادارے ’’گیلپ پاکستان‘‘ کا ایک سروے تمام اخبارات میں شائع ہوا تھا۔ اس سروے کے مطابق پنجاب میں پی۔ٹی۔آئی کی مقبولیت کی شرح 34 فی صد تھی۔ 8 فروری کو اُسے 35 فی صد ووٹ ملے۔ مسلم لیگ (ن) کی شرح 32 فی صد تھی۔ اُسے 34ی صد ووٹ ملے۔ پیپلزپارٹی کے بارے میں 6 فی صد کی پیش بینی کی گئی تھی۔ اُسے 6 فی صد ووٹ ہی ملے۔
خیبرپختون خوا کے حوالے سے سروے میں بتایا گیا تھا کہ پی۔ٹی۔آئی کو 45 فی صد ووٹ مل سکتے ہیں۔ اُسے 44 فی صد ملے۔ مسلم لیگ (ن) کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ 9 فی صد لے پائے گی۔ اُسے 9 فی صد ہی ملے۔ جمعیت علمائے اسلام کے بارے میں 15 فی صد کی پیشیں گوئی کی گئی تھی۔ اُسے 15 فی صد ہی ملے۔ ان ٹھوس حقائق کے باوجود ہاہا کار ہے کہ تھمنے میں نہیں آ رہی۔ دعویٰ یہ ہے کہ ہمارے 80 حلقے چھین لئے گئے۔ لیکن الیکشن کمیشن میں قومی اسمبلی کے صرف بائیس حلقے چیلنج کئے گئے ہیں جن میں سے دس کا تعلق خیبرپختون خوا سے ہے۔ پنجاب کے صرف سات حلقوں پر اعتراض اٹھایاگیا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ پتھر کو جونک نہیں لگائی جاسکتی۔ جو شخص آرمی چیف کی تقرری کو گلیوں، چوراہوں کا موضوع بنا سکتا، اس کا راستہ روکنے کیلئے اسلام آباد پر یلغار کرسکتا، اس کا تختہ الٹنے کیلئے فوج میں دراڑیں ڈالنے کی سازش کرسکتا، مذموم سیاسی مقاصد کیلئے دفاعی تنصیبات کو نشانہ بناسکتا اور شہداء کی مقدس یادگاروں کو تاراج کرسکتا ہے، وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ جو لابنگ فرمز خرید کر اُنہیں پاکستان کے چہرے پر کالک تھوپنے کیلئے کروڑوں ڈالر لٹا سکتا ہے اور جو پاکستان کو انسانی حقوق کی قتل گاہ باور کرانے کیلئے دنیا بھر میں، بھارتی سفارت کاروں کے پہلو بہ پہلو متحرک ہوسکتا ہے اُس سے قومی سیاست کا مہذب کردار بننے کی توقع ریگزاروں میں لالہ وگل کھلانے کی سعیِٔ رائیگاں کے سوا کچھ نہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔