08 اپریل ، 2024
کچے کے ڈاکوؤں کے بارے میں تو آپ اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ وہ کس طرح سرعام شہریوں، سکیورٹی و ریسکیو اہلکاروں کو اغوا کرکے جسمانی تشدد کی ویڈیوز بناتے اور اہل خانہ سے کروڑوں روپے تاوان مانگتے،وصول کرتے ہیں۔ تاوان نہ ملنے کی صورت میں اغوا کنندہ کو بے دردی سے قتل کرکے لاش ویرانے میں پھینک دی جاتی ہے جبکہ پنجاب ، سندھ کی پولیس ابھی تک ان پرقابو پانے میں ناکام ہے۔
بھارتی سرحدی علاقےسے منسلک کچے کے علاقے میں ان ڈاکوؤں کے پاس جدید ترین بھارتی اسلحہ، راکٹ لانچر سندھ پنجاب پولیس سے چھینی گئی بکتر بند گاڑیاں، وائرلیس سسٹم تک موجود ہیں۔ وہ ایک حکمت عملی کے تحت لوٹ مار کا باقاعدہ نظام چلا رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ جب پورے ملک میں سکیورٹی خدشات کے نام پر انٹرنیٹ سروس معطل کردی جاتی ہے کچے کے ڈاکو بلاتعطل اس سہولت سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں۔ کچے کے ڈاکوؤں کو کوئی وفاقی ادارہ پوچھ سکتا ہے نہ دو صوبوں کی پولیس ان پر ہاتھ ڈال سکتی ہے۔ کچھ اہلکار ان کے سہولت کار بھی ہیں۔ خدشہ یہی نظرآتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ ڈاکو طالبان اور بلوچ علیحدگی پسند کالعدم مسلح تنظیموں کی طرح ریاست کیلئے بہت بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔
ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ خوف اور دہشت کی بنیاد پر ایسی مسلح تحریک بھی شروع کر دیں جس کے پیچھے ہم بھارت کا ہاتھ تلاش کرتے ہیں اور ریاست ہاتھ ملتی رہ جاتی ہے اور خدانخواستہ ایسا وقت نہ آجائے کہ کچے کے ڈاکوؤں سے ان کی شرائط پر مذاکرات کرکے انہیں قومی دھارے میں لانے کے نعرے، دعوے سننا پڑجائیں۔
محو حیرت ہوں کچے کے ڈاکو سرعام شہریوں پر تشدد کی ویڈیوز اپ لوڈ کرتے ہیں ریاست کو للکارتے اور مذاق اڑاتے ہیں لیکن ریاست پھر بھی خاموش ہے۔ کہنے کو تو ریاست سے زیادہ طاقت ور کوئی نہیں ہوسکتا۔ کچے کے ڈاکو کس کھیت کی مولی ہیں کہ انہیں کچلا نہیں جاسکتا۔
ہم نے ماضی قریب میں ایسے بہت ٹوپی ڈرامے دیکھے ہیں، نام نہاد پولیس آپریشنز کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کر دیئے جاتے ہیں۔ وزرائے اعلیٰ مورچوں کا دورہ کرکے اہلکاروں کو شاباش دیتے ہیں، کروڑوں کے بجٹ، اسلحہ گولہ بارود، خصوصی الاؤنسز کے نام پر خرچ کردیئے جاتے ہیں نتیجہ صفر جمع صفر، جواب صفر۔ ہماری تو عقل یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوئی جاتی ہے کہ جنہیں ہم کچے کے ڈاکو کہتے ہیں دراصل یہ مستقبل کے دہشت گرد ہیں طرفہ تماشا دیکھئے کہ افغان و پاکستانی طالبان گٹھ جوڑ دن رات تباہی کررہا ہے، بلوچستان میں کالعدم بی ایل اے سمیت علیحدگی پسندی کے نام پر دہشت گرد دندناتے پھر رہے اور کچے کے ڈاکو اپنی ”ریاست“ مضبوط کرنے میں مصروف ہیں۔
ایسے میں ہماری حکمت عملی کیا ہے؟ خیال تو یہ آتا ہے کہ اگر یہ سب دہشت گرد عناصر اور کچے کے ڈاکو مستقبل میں ایک دوسرے کے سہولت کار بن گئے یا ان سب نے ریاست کے خلاف ایکا کرکے چاروں طرف سے بیک وقت محاذ کھول دیا تو انجام کیا ہوگا؟ اگر ریاست چاہے تو آج کچے کے ڈاکوؤں کو نیست و نابود کرسکتی ہے۔
ریاست کے پاس اختیار بھی ہے طاقت اور ہتھیار بھی۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ کچے کے ڈاکو معصوم شہریوں، سکیورٹی، ریسکیو اہلکاروں کو یرغمال بناکر تاوان وصول کریں اور ریاست تماشا دیکھتی رہے۔ ہر گزرتے دن کچے کے اردگرد علاقوں میں خوف کی فضاء پھیلتی جارہی ہے۔
قومی شاہراہوں، موٹرویز پر انتظامیہ کی طرف سے واضح اعلانات لکھے نظر آتے ہیں کہ ان شاہراہوں پر دن کے اوقات میں قافلوں کی صورت اور شام کے بعد سفر سے گریز کریں۔ واضح شواہد موجود ہیں کہ کچے کے ڈاکو جب چاہیں، جیسے چاہیں، جس سے چاہیں، مسافر گاڑیاں روک کر بھتہ وصول کرتے ہیں۔اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مسافروں کی طرف سے مزاحمت پر انہیں فائرنگ کرکے قتل تک کردیا جاتا ہے اور قانون یہاں بالکل بے بس نظر آتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ڈاکو کچے سے نکل کر پکے (شہر) کے علاقے تک پہنچ چکے ہیں۔یہ ایک انتباہ ہے کہ مستقبل میں ریاست کیلئے وہ ایک بڑا چیلنج بننے والے ہیں۔
یاد رکھئے ڈاکو ڈاکو ہی ہوتا ہے اس کا کام صرف ڈاکے مارنا، عوام کا مال و متاع لوٹنا ہوتا ہے۔ عوام کچے کے ڈاکوؤں کی طرح پکے کے ڈاکوؤں کے ہاتھوں بھی لٹ رہے ہیں۔ کوئی ایک مثال ہو تو ہم بتائیں، یہاں ہر اینٹ کے نیچے کوئی نہ کوئی کچا پکا ڈاکو نکلے گا۔ پکے کے ڈاکوؤں کی یہ کہانی تقریباً 77 سال پرانی ہے۔ یہ سادہ لوح لوگوں کو وقفے وقفے سے کبھی جمہوریت تو کبھی آمریت کے نام پر سبز باغ دکھاتے ہیں۔
انکی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں، بجلی، گیس، پٹرول اور نت نئے ٹیکسوں کی صورت غریب عوام کا خون نچوڑتے ہیں۔ بڑے بڑے عوامی منصوبوں کے نام پر کرپشن کرتے ہیں۔ چلتے اداروں کو پہلے مفلوج کرتے ہیں پھر مقروض کرکے انہیں ناکارہ بنا دیتے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ نجکاری کے نام پر ان اداروں کی نیلامی کردی جاتی ہے اور اپنے ہی کارندوں کے ذریعے دیوالیہ ہوئے ادارے اونے پونے خرید کر پرائیویٹ سیکٹر کے نام پر چند سیٹھوں کے حوالے کرکے قوم کو ان کاغلام بنایا جارہا ہے۔ کچے پکے کے ڈاکوؤں کی یہ ادھوری کہانی ابھی جاری ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔