05 مئی ، 2024
میں ان دنوں ایک کتاب لکھ رہا ہوں جو میری یادداشتوں پر بنی ہو گی، اس میں ان تمام رازوں پر سے پردہ اٹھایا جائے گا جن کی میں آج تک حفاظت کرتا چلا آ رہا ہوں ،قوم جب ان رازوں سے واقف ہوگی تو اس کے اندر ایک ہیجان برپا ہو جائے گا ،اس کتاب میں سے چند واقعات کی صرف جھلکیاں قارئین کی نذر ہیں۔
یہ میری خوش بختی ہے کہ میں نہ صرف یہ کہ قائداعظم سے ملا ہوں بلکہ خدا کے فضل سے ان کے اہم مشوروں میں بھی شریک رہا ہوں میری ان سے پہلی ملاقات یکم فروری 1943ء کو اپنے امرتسر والے مکان میں ہوئی جہاں وہ میرےچچا ،جو ان کے قریبی ساتھی تھے، کی عیادت کیلئے تشریف لائے تھے، میں قائد کے جلسے جلوسوں میں شرکت کیا کرتا تھا لیکن انہیں اتنے قریب سے دیکھنے کایہ پہلا موقع تھا خوشی سے میرے پائوں زمین پر ٹک نہیں رہے تھے ،تاہم میں فرط ادب سے خاموش رہا اور ان دو قریبی دوستوں کی گفتگو غور سے سنتا رہا ۔
قائد اعظم نے میرے چچا سے کہا میں ان سے سخت بیزار ہوں یہ صاحب میرے ڈسپلن میں نہیں آتے پتہ نہیں ان کا اشارہ کس کی جانب تھا بہرحال جب پاکستان وجود میں آ گیا تو میں نے قائد اعظم کو سیاست دانوں سےسخت نالاں پایا، ایک دن انہوں نے میری موجودگی میں فوج کے ایک افسر ایوب خان کو (جو بعد میں فیلڈ مارشل بنے ) بلایا اور کہا یہ ملک سیاست دانوں سے نہیں سنبھالا جائے گا ۔اس کو چلانے کی ذمہ داریاں فوج ہی کو اٹھانا ہوں گی چنانچہ ایوب خان نے حالات کا جائزہ لینا شروع کیا او ربالآخر 1958ء میں وہ اقتدار میں آ گئے، امریکی صدر کے ساتھ ایوب خان کے انتہائی قریبی تعلقات تھے ایک دن امریکی صدر کا انہیں فون آیا تو اتفاق سے میں ان کے پاس ہی بیٹھا تھا، امریکی صدر نے انہیں کہا کہ وہ بھٹو سے محتاط رہے یہ انتہائی خطرناک شخص ہے۔ افسوس ایوب خان نے اپنے دلی دوست کے مشورے پر عمل نہ کیا جس کا خمیازہ بالآخر انہیں بھگتنا پڑا ۔میں اس لحاظ سے بہت خوش قسمت ہوں کہ پاکستانی قوم کے عظیم رہنمائوں جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاءالحق مرحوم بھی مجھ پر بہت مہربان رہے ،یہ مجھ سے وہ باتیں بھی کرلیتےتھے جو اپنے معتمد مشیروں سے ہی کرسکتے تھے ۔
یہاں یہ واضح کرتا جائوں کہ جنرل یحییٰ خان پر ملک توڑنے اور شراب نوشی وغیرہ کے الزامات سیاست دانوں کے عائد کردہ ہیں میں تو جب بھی ان سے ملنے گیا انہیں نماز کے بعد ملک کی سلامتی کیلئے دعائیں کرتے ہی پایا، ایک دن مجھ سے کہنے لگے جنرل رانی کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟میں نے عرض کی ’’بدنام عورت ہے آپ اس سے دور رہیں لوگ باتیں بناتے ہیں ‘‘بولے ،لوگوں کا یہ تاثر غلط ہے اس کے جو اعمال لوگوں کو نظر آتے ہیں وہ محض خلق خدا کو خود سے دور رکھنے کیلئے ہیں تاکہ وہ یکسوئی سے عبادت کر سکے وہ ملامتی صوفی ہے۔
جہاں تک جنرل ضیاالحق کا تعلق ہے وہ قول کے پکے تھے چنانچہ 90دن سے زیادہ اقتدار اپنے پاس رکھنے پہ تیار نہ تھے مگر پاکستان کی محبت میں انہیں اپنے قول سے مکرنا پڑا ۔ایک دن جنرل صاحب نے مجھے دوپہر کو یاد فرمایا یہ میرے قیلولے کا وقت ہوتا ہے چنانچہ میں نے معذرت کی مگر جنرل صاحب نے بہت عاجزی سے کہا آج تو میرے لئے اپنا قیلولہ ترک کر دو تمہیں ایک بہت ضروری بات بتانا ہے میں انکار نہ کرسکا ،جنرل صاحب ریلیکسنگ موڈ میں چو خانوں والی دھوتی باندھے اپنے ڈرائنگ روم کے صوفے پر تشریف فرما تھے مجھے دیکھا تو کہنے لگے میں ایک گناہ گار آدمی ہوں مگر مجھے القا ہوا ہے کہ اس ملک کی بقا ملک سے سیاست کوجڑوں سے اکھاڑ پھینکنے ہی میں مضمر ہے ،میں تو جانے والا ہوں مگر میرے جانے کے بارہ سال بعد ایک جرنیل اور آئے گا جو ملک کی تقدیر بد ل دے گا۔ میری وصیت ہے کہ اس کے ہاتھ مضبوط کرنا یہ 1987ء کا واقعہ ہے چنانچہ جنرل پرویز مشرف آکر رہے ۔
میں اپنی یہ بات یہیں ختم کر رہا ہوں کہ ’’داستان‘‘ میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام ا ٓتے ہیں اور ایک اہم بات یہ ہے کہ میں نے پکا سامنہ بنا کر ابھی جو کچھ کہا ہے صرف یہ بتانے کےلئے کہا ہے کہ میری اس خرافات پر کچھ لوگ یقین بھی کر سکتے ہیں اور میرے ’’انکشافات‘‘کوٹیشنزکی صورت اختیار کر سکتے ہیں بہت عرصہ قبل میں نے اسی طرح کا ایک کالم لکھا تھا،جس میں ملک کے صف ا ول کے رہنمائوں پر بہت رکیک حملے کئے تھے تاہم آخر میں واضح کر دیا تھا کہ سب کچھ جھوٹ ہے مگر لوگوں کی ایک تعداد اس پر یقین کر گئی کہ ہم لوگ کسی کی برائی سن کر خوش ہوتے ہیں اور پھر ان بے سرے الزامات اور ان پر اچھالی گئی گندگی کو دور دور تک پہنچانے میں لگ جاتے ہیں اور ایسے ہی ہوا اس روز صبح صبح مجھے ایک قاری کا فون آیا اور اس کالم پر ڈھیروں مبارک باد دیتے ہوئے کہا آپ نے ان لوگوں کو ننگا کرکے بہت نیکی کمائی ہے۔
تاہم آج کے کالم پر اس طرح کی کوئی کال نہیں آئے گی کیونکہ اس بار تو میں نے پچھلے ’’دھونے‘‘ دھوئے ہیں ’’وچلی گل‘‘ تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔