Time 19 مئی ، 2024
دنیا

بھارتی کالج کے مسلم پرنسپل پر ہندو مخالف اور ملک دشمنی کے الزامات ڈیڑھ سال بعد غلط قرار

دیکھنےسے ظاہر ہوتا ہے ایف آئی آر  ’غیرمعقول‘ ہونے کے سوا کچھ نہیں، بھارتی سپریم کورٹ: فوٹو/  انڈین میڈیا
 دیکھنےسے ظاہر ہوتا ہے ایف آئی آر  ’غیرمعقول‘ ہونے کے سوا کچھ نہیں، بھارتی سپریم کورٹ: فوٹو/  انڈین میڈیا

بھارتی سپریم کورٹ نے لاء کالج کے سابق پرنسپل ڈاکٹر انعام الرحمان پر لگائے گئے ہندو مخالف اور  ملک دشمنی کے الزامات کو ڈیڑھ برس بعد غلط قرار  دے دیے۔ 

بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع اندور  کے سرکاری لاءکالج کے پرنسپل ڈاکٹر انعام الرحمان پر  ہندو انتہا پسند حکمران جماعت بی جے پی کی طلبہ ونگ (اے بی وی پی)  نے کالج لائبریری میں ہندو اور ملک  مخالف کتابیں رکھنے کے الزامات لگائے تھے۔

رپورٹ کے مطابق پرنسپل پر خود نمازپڑھنےاور  بچوں کو بھی نماز پڑھنے کی ترغیب دینے، لاء کالج میں مسلمان اساتذہ بھرتی کرنےکا بھی الزام تھا،  ان الزامات کی بنا پر مسلم پرنسپل انعام الرحمان سے حکومت نے زبردستی استعفیٰ لے لیا تھا اور ان پر  مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق کالج پرنسپل نے بی جے پی کے طلبہ ونگ کے الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے حکومتی فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ نے کہا کہ کالج  پرنسپل کا معاملہ ظلم و ستم کا معاملہ لگتا ہے، دیکھنے سے ظاہر ہوتا ہے ایف آئی آر  غیر معقول اور بے ہودہ الزام ہونے کے سوا کچھ نہیں۔

بھارتی سپریم کورٹ نے ڈاکٹر انعام الرحمان پر  درج کی گئی ایف آئی آر کو  بیہودہ قرار دیتے ہوئے کالج پرنسپل پر لگے الزامات کو ڈیڑھ برس بعد غلط قرار دیدیا۔

مزید خبریں :