22 مئی ، 2024
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اور وزیرخارجہ حسین امیرعبداللہیان کی ہیلی کاپٹرحادثے میں ناگہانی موت کے بعد سوال پیدا ہوا ہے کہ قائم مقام انتظامیہ اور صدارتی انتخابات کے بعد وجود میں آنیوالی نئی قیادت سے پاکستان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی؟
کراچی میں ایرانی قونصلیٹ میں منعقد تعزیتی تقریب کے میزبان ایرانی قونصل جنرل حسن نوریان اور تعزیت کیلئے آنے والوں نے اس سوال کا وضاحت کے ساتھ جواب دیا۔
تعزیت کیلئے آنے والوں نے جو کہا اسکا ذکر بعد میں پہلے یہ کہ ایرانی صدر کی ایک اہم خواہش پوری نہ ہوسکی اور وہ یہ تھی کہ وہ دورہ پاکستان میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے، پاکستان میں انکی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جہاں انہوں نے طلبہ اور دیگر افراد سے خطاب کیا، ہال انکے حق میں نعروں سے گونجتا رہا، شرکا کے نزدیک وہ عالم اسلام کی بلند تر اور مضبوط ترآواز تھے جو فلسطینیوں پراسرائیلی مظالم کیخلاف پوری طاقت سے گرج رہی تھی۔
عوامی گورنر سندھ کے لقب سے مشہور محمد کامران خان ٹیسوری تعزیت کیلئے آنے والوں میں سب سے پہلی شخصیت تھے، قونصل جنرل سے ملاقات میں انہوں نے اپنے دورہ ایران اور صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبدالہیان سمیت ایرانی وفد کے حالیہ دورہ کراچی کی یادیں تازہ کیں۔
صدر سید ابراہیم رئیسی کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دینے کو گورنر سندھ نے اپنے لیے اعزاز قرار دیا اور بتایا کہ ایران کے زیرک سیاستدان ابراہیم رئیسی نے پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے کی تصویر اپنے صدارتی صفحے پرشئیر بھی کی تھی، گورنر سندھ نے ایرانی صدر کو عالمی اسلام کا ہیرو قراردیا اور تاثرات میں لکھا کہ وہ مدبر سیاستدان تھے جنہوں نے اپنے وطن کی بے لوث خدمت کی۔
گورنرسندھ نے بعد میں میڈیا سے بات کی، ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے عوامی صدر کا لقب پانیوالے صدر رئیسی سے عشائیہ پر ہوئی بات چیت بھی انہوں نے تفصیل سے بتائی، گورنرسندھ نے کہا کہ صدر رئیسی اشیائے خورونوش کی قیمتیں، عام لوگوں کی تنخواہوں اور روزمرہ زندگی سے متعلق امور دریافت کرتے رہے اور پوچھا کہ لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے جانے چاہیں۔
گورنرسندھ نے امید ظاہر کی کہ نئی قیادت ان تمام معاہدوں اور مفاہمت کی یاد داشتوں پر عمل کرے گی جن پر ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران دستخط کیے گئے تھے، کامران ٹیسوری نے بتایا کہ وہ پاکستان میں ایرانی سفیر سے تعزیت کیلئے اسلام آباد روانہ ہورہےہیں۔
ابھی ایک لمحہ بھی نہ گزرا تھا کہ پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری، خاتون اول آصفہ بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ تعزیت کیلئے آئے، قونصل جنرل سے ملاقات میں بلاول بھٹو نے صدر رئیسی کے ناگہانی انتقال کو مسلم دنیا کیلئے سانحہ قرار دیا۔
وزیر خارجہ کی حیثیت سے حسین امیر عبداللہیان سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ انہیں اس بات پر خوشی ہے کہ ان رابطوں سے پاک ایران تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کا موقع ملا۔
بلاول بھٹو نے اپنے دورہ ایران کی یادیں بھی تازہ کیں جس میں خاص طورپر صدر رئسیی سے ہوئی ملاقات اور بات چیت کا حوالہ دیا۔
تعزیتی تاثرات درج کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان کے انتقال نے انہیں بھائی، دوست اور ساتھی سے محروم کردیا ہے، آصفہ بھٹو زرداری نے بھی اپنے بھائی کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے تاثرات کے صفحے پر دستخط کیے۔
تعزیتی تقریب میں شریک آصفہ بھٹو کا چہرہ شاید اس لیے بھی غمزدہ تھا کیونکہ ایران کے صدر رئیسی کے حالیہ دورہ پاکستان میں آصفہ بھٹوپل پل مہمان خاتون اول ڈاکٹر جمیلے السادات علم الہدی حیات کے ساتھ رہی تھیں، استقبال سے الوداع تک ساتھ رہنےکی بنیادی وجہ آصفہ بھٹو کا پاکستان کا خاتون اول ہونا ہے کیونکہ اس حیثیت میں وہ ہر مہمان خاتون اول کی سرکاری میزبان کا فرض نبھاتی ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ ڈاکٹر جمیلے السادات علم الہدی حیات جہاں گئیں، ان میں سے اکثر مقامات پر وہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کی یاد میں فاتحہ خوانی اورایثال ثواب کی دعاؤں سے تقریب کا آغاز کرتی رہیں، کبھی بے نظیر بھٹو کی زندگی کے واقعات بتاتیں اور کبھی مسلم دنیا میں بطور خاتون انکے کردارکی اہمیت سے آگاہ کرتیں۔
آصفہ بھٹو سے انکا تعلق ماں بیٹی جیسا نظرآیا تھا، شاید اسکی ایک وجہ سابق خاتون اول بیگم نصرت بھٹو بھی ہوں، شہید ذوالفقار علی بھٹو کی وہ بیگم جن کا تعلق ایران سے تھا، وہ خاتون جنہوں نے خوشی کے چند لمحات کے سوا ساری زندگی یا تو شوہر کو قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتا دیکھ کر گزاری، انکی پھانسی سہی اور پھر جواں سال بیٹوں میر شاہنواز بھٹو اورمیر مرتضی بھٹو کی شہادت کا صدمہ جھیلا، شاید خدا نے بے نظیربھٹو کا غم دیکھنے سے انہیں بچانا تھا جو بیٹی کی شہادت سے پہلے وہ خالق حقیقی سے جاملی تھیں۔
شہید بےنظیربھٹو کے چشم وچراغ بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو کا احترام تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ان دونوں کو خداحافظ کہنے پہلے باہر گئے اور پھر تعزیتی کتاب میں تاثرات درج کرنے لوٹے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کا ذکر کیا اور کہا کہ انکا دورہ کراچی گو مختصر تھا اور مسلسل سفر اور ملاقاتوں کے سبب وہ تھکے ہوئے تھے مگر ہر ایونٹ میں تروتازہ اور مسکراہٹوں کے ساتھ جلوہ گر رہے۔
وزیراعلیٰ نے انکشاف کیا کہ ایرانی وفد نے انہیں بتایا تھا کہ ممکن ہے صدراپنے اعزاز میں عشائیے میں شرکت نہ کرسکیں مگر اس عشائیہ میں بھی وہ آخری لمحات تک پوری توانائی کےساتھ شریک رہے۔
ہوا بھی کچھ ایسا ہی تھا کہ اپریل میں دورہ پاکستان کےدوران اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں ایرانی وفد نے ایک کے بعد دوسری ملاقات یا تقریب میں شرکت کی تھی اور دورہ مکمل کرکے ایرانی صدر کو براہ راست سری لنکا جاکر منصوبوں کا افتتاح کرنا تھا۔
وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ اور گورنرسندھ کامران ٹیسوری استقبال سے الوداع کہنے کے لمحات تک انکے ساتھ تھے، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے تعزیتی تاثرات درج کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اقوام عالم میں مسلم ممالک کو مضبوط طاقت بنانے سے متعلق صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کی میراث کو مسلم ممالک کے لوگ جاری رکھیں گے۔
پیپلزپارٹی کی قیادت کا وفد ابھی تعزیت ہی میں مصروف تھا کہ سابق صدر عارف علوی آئے، وہ کچھ دیر قونصلیٹ کے سینئر اہلکاروں کے ساتھ رہے اور جیسے ہی پیپلزپارٹی کا وفد روانہ ہوا تو انہوں نے قونصل جنرل حسن نوریان سے ملاقات کی۔
سابق صدرعارف علوی نے بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر رئیسی کا انتقال مسلم دنیا کیلئے ایک سانحہ ہے، بعد میں اپنے تاثرات درج کرتے ہوئے صدر علوی نے کہا کہ جب بھی انہیں صدر رئیسی سے ملاقات اور بات چیت کا موقع ملا، انہیں سُپر انٹیلیجنٹ یعنی غیرمعمولی طورپر ذہین اور قابل پایا، وہ دنیا میں لوگوں کو درپیش مسائل حل کرنے کے لیے انتہائی سنجیدہ تھے۔
کئی دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا بھی قونصلیٹ میں تانتا بندھا رہا، کئی ممالک کے قونصل جنرل، پاکستانی کاروباری، سماجی اور مذہبی شخصیات بھی تعزیت کیلئے آنیوالوں میں شامل تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایرانی صدر سادگی پسند، انتہائی محنتی، عوام کی فلاح کیلئے مخلص، کرپشن کیخلاف توانا آواز اور عالم اسلام کیلئے قوت کی علامت تھے، انکا آخری خطاب غزہ میں جاری اسرائیلی مظالم کیخلاف تھا اور انکا آخری اقدام ایران اور آذربائیجان کے عوام کی بہبود کیلئے ڈیم کی تعمیر تھا۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایرانی قونصل جنرل نے تعزیت کیلئے آنیوالوں سے اظہار تشکر کیا، پاک ایران تعلقات کا ذکر کرتےہوئے حسن نوریان نے کہا کہ دورہ پاکستان سے واپسی کے ساتھ ہی اس بات کی کوشش کی جارہی تھی کہ معاہدوں اور مفاہمت کی یاد داشتوں پر تیزی سے عمل کیا جائے۔
حسن نوریان نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ایران کے وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان نے پچھلے ہفتے ہی ایک میٹنگ بلائی تھی جس میں پاکستان میں ایران کے سفیر اور مختلف شہروں میں موجود 4 قونصل جنرل شریک ہوئے تھے، اس ملاقات میں وزیر خارجہ نے پاکستان میں طے پائے ایم اویوز پر پیشرفت کا جائزہ لیا تھا مگر افسوس کہ وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان آج ہم میں نہیں۔
ایرانی قونصل جنرل نے کہا کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، الیکشن ہوتے رہتے ہیں لیکن ایک بات واضح ہے اور وہ یہ کہ ایران کی خارجہ پالیسی میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ترجیح حاصل ہے، انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ پاک ایران تعلقات مضبوط ترکرنے کے اقدامات آئندہ برسوں میں بھی جاری رہیں گے۔
تکنیکی خرابی کے سبب پیش آئے ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ایران کے صدرابراہیم رئیسی، وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان، مشرقی آذربائیجان صوبے کے گورنر، صوبے میں آیت اللہ خامنہ ای کے نمائندے اور دیگر حکام کی آخری رسومات کا آج سے تبریز میں آغاز ہوگیا ہے۔
شہدا کی نماز جنازہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای تہران میں پڑھائیں گے جس کے بعد ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کو روضہ امام علی رضا کے احاطے میں جمعہ کو سپرد خاک کر دیا جائے گا۔
ایران میں قائم مقام قیادت نے 28 جون کو صدارتی انتخابات کا اعلان کیا ہے، توقع کی جارہی ہے کہ مشرق وسطی میں جاری تنازعے کے اثرات ایران پر ہوں گے اور ایک بار پھر قدامت پسند قیادت ہی صدارت کے منصب پرفائز ہوگی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔