بلاگ

پرویز الٰہی اور فواد چوہدری کی رہائی

پاکستان کی سب سے مقبول جماعت تحریک انصاف ابھی تک مسلسل عتاب کا شکار ہے۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی سمیت متعدد رہنما مختلف مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے پابند سلاسل ہیں۔ جبکہ دوسری صف کے کئی رہنما اور کارکنان بھی نو مئی کے بعد مسلسل اذیتیں سہہ رہے ہیں۔ 

لیکن اس وقت تک عمران خان نے نہ تو کسی ڈیل کا عندیہ دیا ہے اور نہ ہی اپنے موقف میں نرمی پیدا کی ہے۔ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے مرکزی دفتر کی مسماری ہو یا شاہ محمود قریشی پر مبینہ سختیاں،تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن پر حملہ ہو یا نچلی سطح کےکارکنان پر نت نئے مقدمات ،قرائن بتا رہے ہیں کہ فی الحال تحریک انصاف کیلئے کسی بھی سطح پر نرمی کا کوئی تاثر موجود نہیں۔اس کے باوجود گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے صدر جناب چوہدری پرویز الٰہی، سابق وزیر اطلاعات جناب فواد حسین چوہدری کی رہائی اور تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر کے اچانک منظر عام پر آنے سے ان افواہوں کو تقویت ملی کہ شاید کسی سطح پر تحریک انصاف کیلئے ڈیل کا دروازہ کھول دیا گیا ہے۔فواد چوہدری تحریک انصاف کے انتہائی متحرک اور فعال رہنما رہے ہیں وہ ہمیشہ کھل کر بات کرنے کے عادی ہیں حکومت میں رہتے ہوئے اور حکومت سے علیحدگی کے بعد وہ ہمیشہ دوٹوک موقف کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

ان پر جو مقدمات بنائے گئے ان کی قانونی اور اخلاقی حیثیت اتنی مشکوک تھی کہ انہیں جیل میں زیادہ دیر رکھنا ممکن نہ تھا۔خود فواد چوہدری نے بھی اس امر کی تصدیق کی تھی کہ ان کی رہائی کسی ڈیل یا ڈھیل کا نتیجہ نہیں۔چوہدری پرویز الٰہی گزشتہ کئی دہائیوں سے ملکی سیاست میں اپنا موثر کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے ان چند سیاستدانوں میں سےایک ہیں جن کے پاکستان کے تمام بڑے سیاسی خانوادوں کے ساتھ ذاتی تعلقات ہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ، بیوروکریسی اور مقتدرہ میں ان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔انہوں نے ضلع کونسل سے لے کر قومی اسمبلی تک ہر سطح کی سیاست کی ہے اور وہ چوہدری ظہور الٰہی کی سیاست کے صحیح معنوں میں علمبردار رہے ہیں۔چوہدری پرویز الٰہی اورچوہدری شجاعت حسین نے مل کر ملکی سیاست میں جو مثبت کردار ادا کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد چوہدری خاندان میں جنم لینے والا اختلاف نہ صرف ملکی سیاست کیلئے بد قسمتی کا سبب ہے بلکہ خود چوہدری خاندان کی شرافت، وضع داری اور خاندانی روایات کے بھی منافی ہےلیکن یہ انہونی ہوگئی اور خاندانی تقسیم واضح ہوگئی۔

ان کے سیاسی قد کاٹھ کے پیش نظر تحریکِ انصاف کے قائد عمران خان نے انہیں صدر نامزد کیا۔بطور وزیر اعلیٰ، عمران خان کی خواہش اور حکمت عملی کے مطابق پنجاب اسمبلی توڑ کر اپنی جماعت سے وفاداری ثابت کی اور شاید یہی ’’گستاخی‘‘انکے لیے آزمائش کا سبب بنی۔تحریک انصاف کے صدرپرویز الٰہی کو نو مئی کے متعلقہ 20 مختلف مقدمات میں نامزد کیا گیا۔لیکن ان مقدمات کے علاوہ دیگر 17مقدمات میں گرفتاری ڈالی گئی۔ان میں سے چھ مقدمات ایسے ہیں جنکی ایف آئی آر ہی سرے سے خارج کر دی گئی جبکہ 11 مقدمات میں چوہدری پرویز الٰہی کی ضمانتیں منظور کی گئیں۔چوہدری پرویز الٰہی کے وکیل کے مطابق عدالت نے حکومت سے پوچھا کہ نو مئی کے مقدمات میں ان کے خلاف کوئی شہادت ہے تو وہ صفحہ مثل پر لائی جائے لیکن حکومت کی طرف سے کوئی ایک ثبوت بھی پیش نہ کیا جا سکا یوں چوہدری پرویز الٰہی ایک طویل قانونی جنگ لڑتے ہوئے ایک سال کے بعد رہا ہو کر اپنے گھر میں پہنچ گئے۔ 

چوہدری پرویز الٰہی کی رہائی کا معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا بیان کیا جا رہا ہے لیکن کسی کے پاس بھی کوئی ایسی واقعاتی شہادت موجود نہیں جس سے یہ تاثر تقویت پا سکے کہ ان کی رہائی ڈیل کی وجہ سے کی گئی ہے تاہم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان کی رہائی علامتی طور پر بہت اہم ہے یہ ایک ایسا ’’عدالتی ریلیف ‘‘ہے جس سے ریاست کے ایک اہم ستون نے ریاست کے دوسرے عناصر کو اپنے اختیارات اور طاقت کا پیغام بھیجا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے تقریباً ایک سال بڑی بہادری اور جرات کے ساتھ قید کاٹ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک حقیقی سیاستدان ہیں اور کسی سہارے کے بغیر بھی سیاست کر سکتے ہیں اس کا اعتراف ان کے بدترین سیاسی مخالفین نے ٹی وی پر آ کر بھی کیا ۔

جبکہ انکی جیل یاترا مونس الٰہی کی سیاسی حکمت عملی کا بھی حصہ ہے جس سے مقتدرہ سے مل کر سیاست کرنے کا داغ بھی دھل گیا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کے متحرک ہونے سے تحریک انصاف کے قائدین اور کارکنان کو حوصلہ ملے گا اور ملک کی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی۔حماد اظہر کی واپسی، فواد چوہدری کی رہائی اور پھر پی ٹی آئی میں واپسی، چوہدری پرویز الٰہی کے جیل سے رہا ہونے سے ایسا لگ رہا ہے کہ اب تحریک انصاف کی قیادت ایک مرتبہ پھر وکلاء سے سیاسی لیڈرشپ کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔یوں بھی وکلا نے تحریک انصاف کی قیادت کے لیے کوئی بھی ٹھوس اقدام نہیں کیا۔

عمران خان،شاہ محمود قریشی پر بنائے گئے کمزور مقدمات میں ریلیف نہیں مل سکا۔70 سالہ بزرگ خاتون ڈاکٹر یاسمین راشد بھی انصافی وکلا کی راہ دیکھ رہی ہیں حالانکہ عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں۔وکلا کو چاہیے کہ وہ سیاست کا میدان سیاست دانوں کیلئے چھوڑیں اور خود مقدمات کی تیاری کر کے عدالتی میدان کا رخ کریں۔یہ تحریک انصاف اور سیاست کیلئےبھی خوش آئند بات ہے کہ ایک سیاسی جماعت کی قیادت جینوین سیاسی رہنما سنبھالیں تاکہ سیاسی روایات فروغ پا سکیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔