29 مئی ، 2024
کینسر موجودہ عہد کے سنگین ترین امراض میں سے ایک ہے اور اس کا علاج بھی بہت مشکل سے ہوتا ہے۔
مگر زمانہ قدیم میں بھی یہ مرض موجود تھا اور اس کا علاج کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔
جی ہاں واقعی قدیم مصر میں لوگوں کی جانب سے کینسر کا علاج سرجری کے ذریعے کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
یہ بات ایک نئی تحقیق میں سامنے آئی جس میں کینسر کے علاج کے قدیم ترین شواہد دریافت کیے گئے۔
اس سے قبل بھی ہزاروں برس پرانی تحریروں سے معلوم ہوا تھا کہ قدیم مصری طبی شعبے میں کافی پیشرفت کر چکے تھے اور متعدد امراض کو شناخت کرکے علاج کرتے تھے۔
مگر اب پہلی بار معلوم ہوا ہے کہ وہ کینسر کا علاج کس طرح کرتے تھے۔
Santiago de Compostela یونیورسٹی کی تحقیق کے دوران قدیم کھوپڑیوں کی جانچ پڑتال کے دوران کینسر زدہ زخموں کے گرد سرجری کے نشانات دریافت کیے گئے۔
اس سے عندیہ ملتا ہے کہ قدیم مصری کینسر کے علاج کے لیے مختلف تجربات کرتے رہے تھے۔
محققین نے بتایا کہ نتائج سے طبی تاریخ کے حوالے سے ہمارے علم میں تبدیلیاں آئی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ کینسر کی رسولی سے متعلق سرجری کے قدیم ترین شواہد ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا علاج کے لیے کیا گیا یا پوسٹ مارٹم کے لیے، ہمارے لیے مصدقہ طور پر کہنا ممکن نہیں، مگر یہ واضح ہے کہ انہوں نے اس مرض کے علاج کی کوشش کی تھی۔
اس تحقیق کا مقصد یہ سمجھنا تھا کہ زمانہ قدیم میں کینسر کا کردار کیا تھا اور قدیم معاشروں میں یہ مرض کس حد تک پھیلا ہوا تھا۔
انہوں نے 2 مصری کھوپڑیوں کی جانچ پڑتال کی جن میں سے ایک 2687 سے 2345 سال قبل مسیح کے عہد کی تھی جبکہ دوسری 663 سے 343 قبل مسیح کی تھی۔
پہلی کھوپڑی میں کینسر کی موجودگی کے شواہد ملے جن کے گرد سرجری کے نشانات بھی تھے۔
محققین نے بتایا کہ یہ شواہد کینسر کی رسولی کی سرجری کا عندیہ دیتے ہیں اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ قدیم مصریوں کی جانب سے اس مرض کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تھی۔
دوسری کھوپڑی میں بھی کینسر کے ایک زخم کا نشان تھا اور محققین نے بتایا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ قدیم میں بھی کینسر کافی عام تھا۔
کینسر ہسٹری پراجیکٹ کے مطابق قدم مصری کینسر سے واقف تھے اور اس حوالے سے شواہد 3 ہزار سے 2500 سال قبل مسیح کے عہد کی تحریروں سے ملتے ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل فرنٹیئرز این میڈیسن میں شائع ہوئے۔