Time 04 جون ، 2024
بلاگ

’’کالے بھونڈ‘‘۔جسٹس اطہر من اللّٰہ کا معنی خیز استعارہ!

گزشتہ ہفتے، سپریم کورٹ میں، ’’کالی بھیڑوں‘‘ اور ’بلیک بمبل بی‘‘ (Black Bumble bee) کا تذکرہ کچھ اس انداز سے آیا کہ سنجیدگی میں لپٹا کورٹ روم نمبر ایک، قہقہوں سے گونج اٹھا۔ میرا دل بھی سنجیدہ گفتاری بلکہ تلخ نگاری سے اوبنے لگا ہے۔ سو،جی چاہتا ہے ماحول کی اس شگفتگی سے تھوڑا لطف اٹھا لیا جائے۔

وزیراعظم شہبازشریف کی طرف سے پانامہ کے حوالے سے ججوں میں ’’کالی بھیڑوں‘‘ کے ذکر کی گونج سپریم کورٹ میں سنائی دی تو اٹارنی جنرل نے وضاحت کردی کہ وزیراعظم کا اشارا ماضی کے کچھ جج صاحبان کی طرف تھا۔ اس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے وزیراعظم کو پیغام دیا کہ’ ’ہم کالی بھیڑیں نہیں، بلیک بمبل بی (Black Bumble bee) ہیں۔‘‘

 جسٹس صاحب تو انگریزی زبان پر بھرپور دسترس رکھنے والی شخصیت ہیں لیکن انہوں نے ہم جیسوں کو شدید مشکل میں ڈال دیا ہے۔ میں نے گوگل کو پکارا۔ لُغت سے مدد لی لیکن کچھ پلّے نہ پڑا۔ خاصی سرکھپائی کے بعد کچھ عالم فاضل دوستوں سے رجوع کیا مگر کسی مخصوص معنی یا یک لفظی اُردو متبادل پر اتفاق نہ ہوسکا۔

عطاء الحق قاسمی بولے__ ’’سب کالا بھونڈ کہہ رہے ہیں، آپ بھی یہی سمجھیں۔‘‘ افتخار عارف نے کہا ’’شہد کی بڑی مکھی۔‘‘ سہیل وڑائچ کہنے لگے __ ’’ہے تو بھونڈ ہی مگر بھِڑ زیادہ مناسب ہے۔‘‘ خورشید ندیم کا پیغام آیا ’’سارنگ یا سارنگ مکھی۔سیاہ مکھی یا ذبابِ اسود۔‘‘ اظہار الحق نے بتایا ’’بھونڈ ہی کہہ سکتے ہیں۔‘‘ اکادمی ادبیات کی سربراہ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے راہنمائی کی ’’بھنورا۔ زنبورِ سیاہ۔ سارنگ۔ بھونڈ۔‘‘ شعیب بن عزیز نے استادانہ انداز میں سمجھایا ’’شہد کی بڑی سیاہ مکھی۔اسے ہم بچپن میں ’’مَکھَّا‘‘ کہتے تھے۔ ہمارے پڑوسیوں کے بچے جھانسی سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ وہ اسے ’’بَڑ مَکھِّی‘‘ کہتے تھے۔ سو اِسے ’کالا مَکھَّا‘ یا ’سیاہ بَڑ مَکھِّی‘ کہہ سکتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر حسین پراچہ بولے__ ’’کالی بھِڑ یا کالا بھونڈ۔‘‘لسانیات کے ماہر ڈاکٹر قاسم بھگیو نے کہا ’’کالی بھوملی۔‘‘ یاسر پیرزادہ نے اسے کہا تو ’’زنبورِ سیاہ‘‘ مگر ووٹ ’’بھونڈ‘‘ کے حق میں دیا۔ بلال غوری کی رائے تھی ’’کالی مَکھِّی یا بھُونڈ۔‘‘ ایک پوٹھوہاری دوست نے اس کا ترجمہ ’’ڈڈار‘‘ اور دوسرے نے ’’ڈیمو‘‘ کیا۔ تاہم ’’کالے بھونڈ‘‘ پر اجماعِ امت ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ میری الجھن یہ ہے کہ ’’کالا بھونڈ‘‘ کوئی زیادہ شائستہ یا نستعلیق استعارہ نہیں۔ یہ غیررومانوی اور غیرشاعرانہ بھی ہے۔ مجھے پوری اُردو شاعری میں کوئی ایک شعربھی نہیں ملا جس میں ’بھونڈ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہو۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جسٹس صاحب کسی اگلی سماعت میں خود ہی ’’بلیک بمبل بی‘‘ کا کوئی اچھا سا اُردو متبادل تجویز کردیں۔

مختلف تراجم کے باوجود میرے دوستوں نے البتہ مکمل اتفاق کیا ہے کہ’’ کالا بھونڈ‘‘سخت زہریلا کیڑا ہے۔ اگر یہ ایک سے زیادہ یعنی لارجر یا فُل جتھہ کی شکل میں ہوں تو ڈنک زدہ شخص کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔

کالم یہیں تک پہنچا تھا کہ ایک دوست کا فون آگیا۔ چھوٹتے ہی ’کالے بھونڈ‘ کی کتھا چھیڑ دی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ دنیا بھر کے جج اس طرح کی خوش کلامی کرتے اور لطیف چٹکلے چھوڑتے رہتے ہیں۔ اُسے بتایا کہ جسٹس اطہرمن اللہ نہایت صاحبِ فراست اور کثیرالمطالعہ جج ہیں۔ انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ استعارہ استعمال کیا ہے۔ وہ بولا __ ’’اس میں ایسی کون سی فراست اور دانش ہے؟‘‘ میں نے دھیمے لہجے میں کہا ’’دیکھو! یہ سیاہ بھونڈ، کالی بھوملی، زنبورِسیاہ، ذبابِ اسود یا ڈیمو، جو کچھ بھی ہے، ایک سچّے، کھرے اور حقیقی مُنصف کی طرح، سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے۔

 اُس کے سامنے گورا آئے یا کالا، بچہ آئے یا بوڑھا، عورت آئے یا مَرد، کسی سے بھی کوئی امتیازی روّیہ روا نہیں رکھتا۔ وہ کسی کی سیاسی وابستگی بھی نہیں دیکھتا۔ کوئی مسلم لیگ (ن) کا ہو یا پیپلزپارٹی کا، پی۔ٹی۔آئی کا ہو یا ایم۔کیو۔ایم کا، سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے اور ترازو کے پلڑوں میں بال برابر جھول نہیں آنے دیتا۔ گہری معنویت کے علاوہ اس استعارے میں ایک صوری یا ظاہری حُسن بھی ہے۔ 

پَروں والے زہریلے سیاہ بھونڈ کی دُم پر پیلے رنگ کی دھاریاں سی ہوتی ہیں۔ یہ دھاریاں جج صاحبان کی سیاہ عبائوں پر سنہری ریشمی حاشیوں سے گہری مشابہت رکھتی ہیں۔۔‘‘ میری روانی میں خلل ڈالتے ہوئے وہ غصّے میں بولا__ ’’بس بس بس۔ بند کرو یہ خوشامد۔ مت جھوٹ بولو کہ کالا بھونڈ سب سے یکساں سلوک کرتا ہے۔ ذرا بتاؤ، نوازشریف کو سسلین مافیا، گاڈ فادر جیسے لقب کس نے دیے تھے؟ کس نے وزیراعظم کو پیغام دیا تھا کہ اڈیالہ جیل میں بڑی جگہ خالی ہے، اور پھر کس نے ریمانڈ پر زیرحراست ملزم کا استقبال ’’گڈ ٹو سی یو‘‘ کہہ کر کیا تھا؟ یہ کیسے انصاف پسند بھونڈ ہیں جو کسی مُجرم کے سرپر تتلیوں کی طرح منڈلاتے اور کسی بے گناہ کے سینے میں اپنا گہرا زہر یلا ڈَنک اتارتے ہوئے اسے وزیراعظم ہائوس سے نکال دیتے ہیں۔‘‘ میں نے اُسے ٹھنڈا کرتے ہوئے کہا __ ’’یار یہ سب ماضی کی باتیں ہیں....‘‘ وہ اور زیادہ بپھر گیا __ ’’اچھا تو یہ بتاؤ جن جج صاحب نے تمہیں ’’کالے بھونڈ‘‘ کا استعارہ دیا ہے انہوں نے جج رانا شمیم کو کس طرح مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کردیا تھا؟ کس طرح اُس کا نام ای۔سی۔ایل میں ڈال دیا تھا۔ صرف اسلئے کہ اس نے شواہد کے ساتھ یہ الزام لگایا تھا کہ ثاقب نثار نے نواز اور مریم کے معاملے میں اسلام آباد کے ججوں پر دباؤ ڈالا۔

 آج وہی بات چھ جج صاحبان نے کہی تو جج صاحب کا مؤقف بدل گیا ہے۔‘‘ میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن وہ بولا __ ’’سنو سنو! جب چار سال پہلے ، ’’ریاست مدینہ‘‘ کے دعویدارعمران خان کے دور میں نوازشریف کی تقریر اور تصویر پر پابندی لگ گئی تو مسلم لیگ (ن) فریادی بن کر عدالت گئی۔ تب جسٹس اطہرمن اللہ صاحب نے درخواست ہی کو ناقابل سماعت قرار دیکر باہر پھینک دیا اور کہا ’’سیاسی معاملات عدالتوں میں نہ لائے جائیں۔تقریر پر پابندی سے نواز شریف کا کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے؟‘‘ اور آج عمران خان کے معاملے پر اُن کی رائے یہ ہے کہ کسی کی تقریر یا بیان پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی چاہے وہ جیل میں بند کوئی سزا یافتہ مجرم ہی کیوں نہ ہو؟ کچھ دِن پہلے انہوں نے اپنے چار ساتھیوں سے اختلاف کرتے ہوئے رائے دی کہ وڈیو لنک پر عمران خان کا خطاب براہ راست پچیس کروڑ عوام تک پہنچایاجائے....‘‘ وہ پتہ نہیں کیا کیا اول فول بکے جارہا تھا۔ میں نے تنگ آ کر فون بند کردیا۔ 

میں پوری طرح عالی مرتبت جسٹس اطہرمن اللہ کے ساتھ کھڑا ہوں۔ انہوں نے’’ کالے بھونڈ‘‘ کے معنی خیز استعارے سے واضح پیغام دیا ہے کہ عدلیہ انصاف کی کارفرمائی کیلئے اپنا ڈنک ’’کالے بھونڈ‘‘ کی طرح بلا خوف ورعایت اور بلارغبت وعناد پوری زہرناکی کے ساتھ استعمال کرے گی۔

تاہم حقیقت یہی ہے کہ پون صدی کے دوران میں ’’کالے بھونڈوں‘‘ کا کردار ایک جیسا نہیں رہا۔ آج تک انہوں نے جمہوریت پر حملہ کرنے اور آئین توڑنے والے کسی ڈکٹیٹر کو نہیں کاٹا۔ بلکہ ان کے ہاتھوں پہ بوسے دیے اور ان کے چمنستانوں کی خوش رنگ تتلیاں بن گئے۔ البتہ سیاستدانوں کے سینے ان کے زہریلے ڈنکوں سے چھلنی ہوتے رہے۔ ایک الجھن یہ بھی ہے کہ ’’کالے بھونڈوں‘‘ کی عدل فرمائی میں تسلسل اور یکسانیت کے بجائے ایسا تاثر ملتا ہے کہ کچھ کے لئے تو وہ سجیلی تتلیاں اور کچھ کیلئے زہریلے سیاہ بھونڈ بنے رہتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔