13 جون ، 2024
اسلام آباد: بجٹ پیش کیے جانے کے موقع پر کمر کسنے کیلئے جن اقدامات کا اعلان متوقع تھا، شہباز شریف حکومت نے ایک مرتبہ پھر اُن اقدامات سے منہ موڑ لیا اور کفایت شعاری کی سفارشات پیش کرنے کیلئے بنائی گئی اپنی دو کمیٹیوں کی تجاویز پر عمل کی منظوری دینے کے بجائے ایک اور کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے۔
اعلیٰ سطح کی کمیٹی نے کفایت شعاری کے حوالے سے جو تجاویز پیش کی تھیں، وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں اُن تجاویز میں سے کسی کا بھی ذکر نہیں کیا۔
یہ اعلیٰ سطح کی کمیٹی وزیراعظم نے اپنی موجودہ حکومت کے ابتدائی دنوں میں قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے برعکس، وزیر خزانہ نے رائٹ سائزنگ کے اُن اقدامات کے حوالے سے بات کی جو حکومت کے زیر غور ہیں اور ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ایک نئی کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بجٹ سے قبل ہونے والے مباحثے میں ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کی سربراہی میں گزشتہ کمیٹی کی جانب سے دی گئی سفارشات کا مفصل جائزہ لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ کمیٹی بھی اس بنیاد پر حکومتی اخراجات میں کمی کیلئے عملی لائحہ عمل تجویز کرنے کیلئے تشکیل دی گئی تھی جو اس سے قبل پی ڈی ایم (شہباز شریف) حکومت میں تشکیل دی گئی کمیٹی نے پیش کی تھی۔
جب اس نمائندے نے یہ جاننے کیلئے کابینہ کے ذریعے سے رابطہ کیا کہ ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں کفایت شعاری کے جن اقدامات کی تجویز دی گئی تھی انہیں بجٹ تقریر میں شامل کیوں نہیں کیا گیا تو اس پر کابینہ ذریعے کا کہنا تھا کہ نئی کمیٹی مزید مفصل سفارشات مرتب کرے گی اور حکومت کا حجم کم کرنے کی تجویز پیش کرے گی۔
حکومت نے نئی کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن اب تک جاری نہیں کیا لیکن ذرائع کہتے ہیں کہ کہ نئی کمیٹی کے ارکان میں بھی پچھلی کمیٹی کے ارکان کی اکثریت ہوگی۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں وزیراعظم شہباز شریف نے جو کمیٹی تشکیل دی تھی؛ اس نے وسط مدتی اقدامات کے ذریعے سالانہ ایک ٹریلین روپے کی بچت کیلئے اقدامات تجویز کیے تھے لیکن کمیٹی کی بیشتر سفارشات نظر انداز کر دی گئیں۔
اُس کمیٹی کی قیادت اچھی ساکھ کے حامل ریٹائرڈ بیوروکریٹ ناصر محمود کھوسہ کے پاس تھی جبکہ ارکان کی تعداد 15 تھی۔ بعد ازاں وزیراعظم نے اپنے موجودہ دور کے ابتدائی چند ہفتوں کے دوران سرکاری اخراجات میں کمی کا عملی منصوبہ پیش کرنے کیلئے سات رکنی کمیٹی تشکیل دی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سات رکنی کمیٹی کے زیادہ تر ارکان وہی تھے جو پی ڈی ایم دور میں بنائی گئی کمیٹی میں شامل تھے جس کی زیادہ تر سفارشات کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔
آخری کمیٹی کی سربراہی ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کر رہے تھے اور اس میں سیکرٹری خزانہ، سیکرٹری کابینہ ڈویژن، سیکرٹری صنعت و پیداوار راشد محمود لنگڑیال، قیصر بنگالی، ڈاکٹر فرخ سلیم اور محمد نوید افتخار شامل تھے۔
2023 کے اوائل میں اس وقت کی پی ڈی ایم حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کرنے والی کمیٹی میں سیکرٹری خزانہ، سیکرٹری کابینہ، ڈاکٹر قیصر بنگالی، ڈاکٹر فرخ سلیم اور محمد نوید افتخار شامل تھے اور یہ کمیٹی زیادہ طاقتور بھی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ کمیٹی میں دیگر کے علاوہ اس وقت کے وزیر مملکت برائے خزانہ، اسپیشل اسسٹنٹ ٹوُ پرائم منسٹر برائے خزانہ، اسپیشل اسسٹنٹ ٹوُ پرائم منسٹر برائے حکومتی تاثیر، وزیراعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ اور تمام چیف سیکرٹریز بھی شامل تھے۔
2023 کی کمیٹی نے کفایت شعاری کے جامع اقدامات کی سفارش کی تھی جن پر عمل درآمد ہونے کی صورت میں سبسڈی کی مد میں 200 ارب کی بچت، 200 ارب روپے ترقیاتی سائیڈ سے، 55 ارب روپے سول حکومت چلانے سے، 60-70 ارب روپے سنگل ٹریژری اکاؤنٹ کے ذریعے بچ جاتے۔ اس کے علاوہ حفاظتی (کنزرویشن) اقدامات سے 100 ارب روپے، غیر اسٹریٹجک سرکاری کمپنیوں (ایس او ایِز) کی ڈائیوسٹمنٹ سے 174 ارب روپے اور غیر جنگی دفاعی اخراجات میں 15 فیصد کمی سے بچت ہوگی۔