17 جون ، 2024
جب ہر طرف انتشار اور بے یقینی کے سائے لہراتے نظر آئیں تو خوشی منانا مشکل ہو جاتا ہے۔ عید جیسا تہوار بھی مجبوریوں کا ہاربن جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں شاعر اور ادیب کا لہجہ سخت ہو جاتا ہے اور اگر وہ میر تقی میر کی طرح تند مزاج ہو تو دیوانہ یا فسادی قرار پاتا ہے۔ میر تقی میر کی زندگی شورشوں اور فتنہ و فساد میں گھری رہی۔ وہ گوشہ عافیت کی تلاش میں آگرہ، لکھنؤ اور دہلی کے درمیان بھٹکتے رہے۔
یہ مغلیہ سلطنت کے زوال کا دور تھا۔ ہندوستان میں راجوں، مہاراجوں اور نوابوں کی بہتات تھی جنہو ں نے شہر شہر اپنی اپنی حکومتیں قائم کر رکھی تھیں۔ ان کی نااتفاقی کا فائدہ اٹھا کر کبھی نادر شاہ دہلی پر حملہ کرتا اور کبھی احمد شاہ ابدالی عذاب کی طرح نازل ہوجاتا۔ ہر مہاراجہ اور نواب یہ کوشش کرتا کہ میر تقی میر اس کے دربار سے وابستگی اختیارکرلیں لیکن میر صاحب بڑے بڑے عہدوں پر براجمان چھوٹےلوگوں کی خوشامد کو ضمیر فروشی سمجھتے تھے۔ ایک دن لکھنؤ میں نواب سعادت علی خان کی سواری گزر رہی تھی۔ سواری جہاں جہاں سے گزرتی تو راستے میں بیٹھے لوگ احترام میں اٹھ کھڑے ہوتے۔ میر تقی میر ایک مسجد کے دروازے پر بیٹھے تھے۔ نواب صاحب کی سواری آئی تو میر صاحب کے سوا سب لوگ کھڑے ہوگئے۔ سید انشا اللہ خان انشا اس وقت نواب صاحب کے ساتھ تھے۔
نواب نے میر تقی میر کی طرف اشارہ کرکے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے۔ انشا نے بتایا کہ یہ ایک متکبر شاعر ہے جس کے پاس کھانے کوتو کچھ نہیں لیکن مزاج میں بڑی تمکنت ہے۔ نواب نے ایک خادم کے ہاتھ خلعت اور ایک ہزار روپے بھجوائے اور ملاقات کی دعوت دی۔ میر صاحب نے بڑے تجاہل عارفانہ کے ساتھ خادم سے کہا کہ یہ روپےمسجد کو دیدو اور خلعت واپس لے جاؤکیونکہ میں کوئی محتاج نہیں ہوں۔
انشا کو فکر ہوئی کہ میر صاحب کا انکار نواب کے غصے کا باعث بن سکتا ہے لہٰذا خود میر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ جناب اپنے حال پر نہیں تو عیال پر رحم کیجئے اور بادشاہ وقت کا ہدیہ قبول فرمایئے۔ انشا کے اصرار پر میر صاحب کبھی کبھی دربار جانے لگے لیکن ان کی آپ بیتی ’’ذکرِ میر‘‘میں لکھنؤ والوں سے ناراضی بڑی واضح نظر آتی ہے۔
میر صاحب نے 1810ء میں لکھنؤ میں وفات پائی لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ اہل لکھنؤ میر تقی میر جیسے بڑے شاعر کی قبر کو محفوظ نہ رکھ سکے۔ اب لکھنؤ میں میرصاحب کی قبر تو موجود نہیں لیکن اردو زبان کے تمام بڑے شعراء میر تقی میر کی شاعرانہ عظمت کے گن گاتےہیں۔ مرز ا غالب نے ان کے بارے میں فرمایا تھا۔
میرؔ کے شعر کا احوال کہوں کیا غالب
جس کا دیوان کم از گلشنِ کشمیر نہیں
میر صاحب کے اشعار کی خصوصیت یہ ہے کہ زمانہ بدل جاتا ہے لیکن ان کے اشعار کی اہمیت اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے۔ ان کے کچھ اشعار کو اتنا زیادہ استعمال کیا گیا کہ ان میں اپنی مرضی کے الفاظ شامل کر دیے گئے اور جب تک میر صاحب کا دیوان آپ کے پاس نہ ہو آپ کو میر تقی میر کے کچھ مقبول اشعار ان کے دیوان میں موجود اشعار سے مختلف نظر آئیں گے۔ ان کا ایک شعر بہت غلط انداز میں بولا جاتا ہے۔
میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
میر تقی میر کے دیوان میں یہ شعر ان کی ایک غزل کے آخر میں کچھ یوں ہے:
ہم فقیروں کو کچھ آزار تمہی دیتے ہو
یوں تو اس فرقے سے سب دعا لیتے ہیں
چاک سینے کے ہمارے نہیں سینے اچھے
انہی زخموں سے دل و جان ہوا لیتے ہیں
میر کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
میر صاحب نے اسی غزل کے آخری شعر میں عطار کے لڑکے سے دوالینے کوبہت بڑی غلطی قرار دیا۔ ان کے کچھ مہربانوں کو عطار پر بڑا غصہ تھا لہٰذا انہوں نے لڑکے کو لونڈا بنا دیا تاکہ عطار کو متنازع بنا دیا جائے۔ عطار دراصل عطر فروش کو کہا جاتا ہے۔ شاید میر صاحب یہ کہنا چاہتے تھے کہ اگر آپ بیمار ہو جائیں تو کسی حکیم یا طبیب کے پاس جائیں عطار کے پاس نہ جائیں اور اگر عطار کے پاس چلے بھی جائیں تو اس کے لڑکے سے دوا نہ لیں۔
ایک دفعہ عطار کے لڑکے سے دوا لے کر زیادہ بیمار ہو جائیں تو باربار اس کے پاس نہ جائیں۔ اس سادہ سے شعر میں بڑے کام کی بات چھپی ہوئی ہے جو صرف تھوڑی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کو ہی سمجھ آسکتی ہے، میر تقی میر کے زمانے میں بڑے عہدوں پر براجمان چھوٹے لوگوں کو اپنی کمزوریوں اور بیماریوں کی وجہ سے معلوم نہ ہو سکی کیونکہ وہ بار بار کسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے رہے۔ اس دوا میں جھوٹ اور خوشامد کی مقدار اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ یہ بادشاہ اور نواب اپنی جھوٹی انا کے غلام بن جاتے اور کبھی نادر شاہ اور کبھی احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں برباد ہو جاتے۔
میر صاحب اپنی مصائب بھری زندگی میں کئی درباروں کے وظیفہ خوار رہے لیکن وظیفہ لینے کے باوجود سچی بات کہتے رہے اور پھر خوار ہوتے رہے۔ نواب آصف الدولہ اور نواب سعادت علی خان کو ان کی بات اس وقت سمجھ آتی جب بار بار عطار کے لڑکے سے دوا لے کر وہ بیمار پڑ جاتے۔
زمانہ بدل گیا لیکن میرصاحب کے شعر میں جس عطار کے لڑکے کا ذکر ہے وہ آج بھی آپ کو اپنے اردگرد یا پھر کسی نہ کسی ٹی وی کی اسکرین پر نظر آجائے گا۔ آج کل کے عطار بڑے بااثر اور طاقتور ہیں، ان کے اکثر لڑکوں کو بھی عوام الناس لونڈا ہی سمجھتے ہیں کیونکہ یہ لونڈے لپاڑے اپنے جھوٹ اور خوشامد کی دوا کھلا کھلا کر پوری قوم کوبیمار بنا رہے ہیں۔
تند مراج اتنے ہیں کہ اپنی دوا پر تنقید کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ تنقید پر پابندی لگانے کے لئے نت نئےقوانین بنوا رہے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ بہت جلد یہ سب عطار اور ان کے لڑکے تاریخ کی گرد میں غائب ہو جائیں گے اور میرصاحب جیسے گستاخ شاعروں کا کلام صدیوں تک زندہ رہے گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔