Time 11 جولائی ، 2024
پاکستان

ٹی ٹی پی کے وہی لوگ دہشتگردی کر رہے ہیں جنہیں پاکستان نے جیلوں سے رہا کیا: وزیر داخلہ

ٹی ٹی پی کے وہی لوگ دہشتگردی کر رہے ہیں جنہیں پاکستان نے جیلوں سے رہا کیا: وزیر داخلہ
ہم نے ان کو اپنی جیلوں سے رہا کیا امید تھی ان کا رویہ ٹھیک ہوگا، اس کے بعد دہشتگردی کا سلسلہ شروع ہوا ہمارا اندازہ غلط ثابت ہوا: سینیٹر محسن نقوی۔ فوٹو فائل

وفاقی وزیر داخلہ سینیٹر محسن نقوی کا کہنا ہے آپریشن عزم استحکام ابھی شروع نہیں ہوا، اس حوالے سے میڈیا تک غلط معلومات پہنچی ہے۔

سینیٹر فیصل رحمان کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزیر داخلہ سینیٹر محسن نقوی، سیکرٹری داخلہ، آئی جی ایف سی اور رینجرز حکام سمیت دیگر شریک ہوئے۔

سیف اللہ ابڑو کا کہنا تھا یہاں سینیٹرز کی ہی سیکیورٹی نہیں تو پاکستان کی سیکیورٹی کی کیا بات کریں، سندھ میں 2023 میں ڈاکٹر علی بخت قتل ہوا، قتل میں پولیس انسپکٹر ملوث تھا جو ابھی تک گرفتار نہ ہو سکا، گھوٹکی میں صحافی نصراللہ قتل ہوا اس کے قاتل نہ پکڑے گئے، کم از کم صحافیوں کے قاتلوں کو تو کیفر کردار تک پہنچائیں۔

سینیٹر ثمینہ زہری نے کہا بار بار بم دھماکوں پر تمام آئی جیز کو خط لکھا، آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ کتنے گرفتار ہوئے کتنے رہا ہوئے، ان تمام کیسز میں صرف 5 ملزمان کو سزا ہو سکی، آئی جی سندھ نے مئی کے خط کا جواب جولائی میں دیا، آئی جی سندھ کی جانب سے ہمیں سنجیدہ تک نہیں لیا گیا۔

ثمینہ زہری کا کہنا تھا سی ڈی اے کی وجہ سے 500 لوگوں کی دکانیں اتوار بازار میں جل گئیں، ایم 25 کے روڈ کا مسئلہ اٹھایا تو وزیر صاحب جذباتی تقریر کر کے چلے گئے، اگر ہمیں مسائل کا ہی نہیں پتہ ہوگا تو حل کیسے نکالیں گے، نور مقدم کیس کا بھی ابھی تک کچھ نہ ہوسکا، میڈیا والے بار بار لکھتے ہیں اسے ضمانت مل گئی اسے مل گئی، اگر ہم لوگوں کو سزائیں نہیں دیں گے تو ریپ ہوتے رہیں گے۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا بہت ساری چیزیں صوبوں سے متعلق ہیں، دہشتگردی کی روز ایک نئی لہر اٹھ رہی ہے، روزانہ ہم اپنے فوجیوں کی شہادتوں کی خبریں سن رہے ہیں، وزیر صاحب بتائیں آپریشن عزم استحکام کب ہو گا، ہو بھی رہا ہے یا نہیں۔

وزیر داخلہ سینیٹر محسن نقوی نے کہا آپ کے لیے جس حد تک جانا پڑا جائیں گے، لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کا زیادہ کنٹرول صوبوں کے پاس ہے، ہم سب بلوچستان جا کر وزیراعلیٰ سے ملاقات کر سکتے ہیں، صوبے آزاد ہیں اس لیے ہماری کچھ حدود ہیں، ہم صوبوں کو آگاہی دے سکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وزارت داخلہ کے ماتحت ٹارگٹڈ آپریشنز اور بارڈر سکیورٹی ہے، صحافیوں کے قتل کیسز پر وزارت داخلہ فالو اپ دے گی، پنجاب اور سندھ میں آپریشنز جاری ہیں ہم نے رینجرز کو سپورٹ دی ہے، مین سپر ہائی وے بہت حد تک محفوظ ہوچکی ہے، صدر مملکت سکھر گئے اور اس پر میٹنگ ہوئی، فیصلہ ہوا کہ لوکل پولیس افسران کو ڈویژن سے نکال دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا دہشتگردی آئی کہاں سے ہے؟ یہ وہ ہی لوگ ہیں جن سے حکومت پاکستان کا طالبان کے ساتھ معاہدہ ہوا، ہم نے ان کو اپنی جیلوں سے رہا کیا امید تھی ان کا رویہ ٹھیک ہوگا، اس کے بعد دہشتگردی کا سلسلہ شروع ہوا ہمارا اندازہ غلط ثابت ہوا، گروپ 15، 15 اور 20، 20 کے بننا شروع ہو گئے، افغانستان اور پاکستان کی جیلوں سے بھی ان کو رہا کیا گیا، اس کے بعد وہ اکٹھے ہوگئے اور زیادہ تر پاکستانی شہری تھے، تحریک طالبان پاکستان کو ہم نے رہا کیا۔

وفاقی وزیر داخلہ نے اجلاس کو بتایا کہ عزم استحکام آپریشن ابھی نہیں شروع ہوا، میڈیا تک بات پہنچنے میں غلطی ہوئی، یہ نیشنل ایکشن پلان کے 6 پوائنٹس ہیں، کسی مخصوص علاقے میں آپریشن کی بات نہیں ہوئی، نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی بات ہوئی۔

مزید خبریں :