Time 16 جولائی ، 2024
پاکستان

حکومت نے پی ٹی آئی کے حوالے سے فیصلےطویل غور و خوض اور مشکل سمجھ کرکیے

حکومت نے پی ٹی آئی کے حوالے سے فیصلےطویل غور و خوض اور مشکل سمجھ کرکیے
انتظامیہ چاہتی ہے کہ عدلیہ آئندہ اپنے فیصلوں سے آئین کی جانب رجوع کرے ورنہ اسے غیرمعمولی اور ماورائے آئین تدابیر کے لیے مجبور ہونا پڑ سکتا ہے/ فائل فوٹو

اسلام آباد: قومی اسمبلی اور سینیٹ کے الگ الگ اجلاس آئندہ پیر 22 جولائی کو طلب کئے جانے کا امکان ہے۔ 

جنگ کو حد درجہ قابل اعتماد ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومت نے تحریک انصاف اور عدالت عظمیٰ کے حوالے سے فیصلے طویل غوروخوض اور انہیں مشکل سمجھ کرکیے ہیں۔

ان میں ہر معاملہ اسی عدالت کے روبرو پیش ہوگا جس نے حکومتی مؤقف کی رو سے ماورائے آئین فیصلے دے کر تحریک انصاف کو سہولتیں فراہم کی ہیں ہرچند یہ کہ اکثریتی فیصلے تھے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات بانی کو عدلیہ کے کورٹ میں پھینکنے کے لیے ہیں، انتظامیہ چاہتی ہے کہ عدلیہ آئندہ اپنے فیصلوں سے آئین کی جانب رجوع کرے ورنہ اسے غیرمعمولی اور ماورائے آئین تدابیر کے لیے مجبور ہونا پڑ سکتا ہے۔

انتظامیہ کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ سیاسی امور میں حدت بڑھا کر اس معاشی منزل کو کھوٹا کرنے پر کام ہو رہا ہے جس کے لیے حکمراں اتحاد نے اپنے سیاسی اثاثوں کو داؤ پر لگا دیا ہے اور انتظامیہ نے اپنی تمام تر صلاحیتیں معاشی استحکام پر مرکوز کر رکھی ہیں۔

5 کے مقابلے میں 8 ججوں کے فیصلوں پر نظرثانی کے لیے درخواست حکمراں پاکستان مسلم لیگ نون کے سیکرٹری جنرل پروفیسر احسن اقبال کے دستخطوں کی بجائے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ کی طرف سے دائر کی گئی تاکہ اس سلسلے میں تاخیر رونما نہ ہو۔

پروفیسر احسن اقبال ان دنوں سی پیک کے حوالے سے مذاکرات کے لیے چین کے دورے پر ہیں، یہ دورہ ان کی وزارتی ذمہ داریوں کا حصہ ہے، وفاقی کابینہ کا اجلاس آئندہ جمعرات 18جولائی کو طلب کیا جا رہا ہے جس میں تمام تر صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ بند ہو گیا ہے اب سیاسی نوعیت کا مکالمہ دوسری جماعتوں سے ہو سکے گا۔ معلوم ہوا ہے کہ آئین کی دفعہ 6  کے تحت سابق صدر عارف علوی، سابق وزیراعظم عمران نیازی اور قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف ہوگی جن پر عدم اعتماد کی تحریک کے دوران قومی اسمبلی توڑنے کی ناکام سازش کا الزام ہے۔

وہاں سابق وفاقی وزیر قانون اور اطلاعات فواد چوہدری کو بھی اس میں شامل کیے جانے پر غور ہوسکتا ہے جنہوں نے تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کی تھی۔

آئینی ماہرین نے اس اندیشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ عالمی معیار میں 134ویں نمبر پر ہے، حالیہ عدالتی فیصلوں کے باعث اس کا یہ درجہ مزید نیچے آسکتا ہے، پاکستان میں مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر اس درجہ بندی کے نیچے رہنے کا ایک اہم عامل ہے۔

حکومتی ذرائع نے بتایا ہے کہ انتظامیہ نے معیشت کے حوالے سے ہونے والے کاموں کو سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے الگ تھلگ رکھنے کی حکمت عملی پر کاربند رکھنے کے فیصلے پر کاربند رہنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔

مزید خبریں :