25 اگست ، 2024
غزہ سٹی: جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے سربراہ یحییٰ السنوار کی تلاش کی دلچسپ تفصیلات سامنے آگئیں۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق حماس کے سربراہ کی تلاش کے لیے امریکا اسرائیل جوائنٹ انٹیلیجنس فورس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اور یحییٰ السنوار کی تلاش کے لیے زمین میں سرائیت کرنے والے ریڈارز کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔
یحییٰ السنوار جنگ کے آغاز میں الیکٹرانک پیغامات بھیجا کرتے تھے پھر اسے ترک کردیا، جنگ کے آغاز میں جوائنٹ ٹیم یحییٰ السنوار کی کالز پکڑنے میں کامیاب بھی ہوئی تھی۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق اسرائیلی انٹیلیجنس کو معلوم ہوا کے یحییٰ السنوار 8 بجے کا عبرانی خبرنامہ سنتے ہیں۔
اخبار کے مطابق بجلی کی قلت کے سبب یحییٰ السنوار نے موبائل فون کا استعمال چھوڑا، جس پر اسرائیل نے غزہ میں ایندھن کی سپلائی دی تاکہ السنوار پھر موبائل استعمال کریں لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق جنوری میں اسرائیل اس سرنگ تک پہنچنے میں بھی کامیاب ہوگیا جہاں یحییٰ السنوار قیام پذیر تھے تاہم چھاپے سے محض چند لمحوں پہلے یحییٰ السنوار وہاں سے چلے گئے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق یہ سب اتنا جلدی ہوا کہ یحییٰ السنوار 10 لاکھ ڈالرز سرنگ میں چھوڑ گئے، بعض اخبارات کے مطابق اسرائیلی فوجیوں کے سرنگ میں پہنچنے پر یحییٰ السنوار تو وہاں موجود نہیں تھے لیکن ان کافی ابھی گرم ہی تھی۔
19 اکتوبر 1962 کو خان یونس کے ایک کیمپ میں آنکھ کھولنے والے یحیٰ ابراہیم حسن السنوار نے ابتدائی تعلیم خان یونس کے اسکول میں ہی حاصل کی اور پھر غزہ کی اسلامک یونیورسٹی سے عربی میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی، انہوں نے 5 سال تک یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ کونسل میں خدمات انجام دیں اور پھر کونسل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین بھی رہے۔
یحیٰ السنوار کی شادی میں تاخیر کی بڑی وجہ ان کی مسلح جدوجہد اور طویل گرفتاری رہی اور پھر 2011 میں شالت (اسرائیلی فوجی کی رہائی) ڈیل کے تحت اسرائیلی جیل سے رہائی پانے کے بعد غزہ کی ایک مسجد میں ان کے نکاح کی تقریب منعقد ہوئی اور پھر یحیٰ کا شمار حماس کی مزاحمتی تنظیم کے سرکردہ رہنماؤں میں ہونے لگا۔
یحیٰ السنوار کو حماس کے سیاسی ونگ اور عزالدین القسام بریگیڈ کی لیڈرشپ کے درمیان روابط قائم رکھنے کا ٹاسک دیا گیا اور پھر 2014 میں اسرائیلی جارحیت کے اختتام پر انہوں نے حماس کے فیلڈ کمانڈرز کی کاکردگی کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے تحقیقات کروائیں جس کے نتیجے میں حماس کے کئی بڑے رہنماؤں کو عہدوں سے بھی ہٹایا گیا۔
ستمبر 2015 میں امریکا نے القسام بریگیڈ کے کمانڈر انچیف محمد الضیف اور سیاسی ونگ کے رہنما راہی مشتہا سمیت یحیٰ السنوارکا نام بین الاقوامی دہشتگردوں کی بلیک لسٹ میں شامل کر دیا۔
13 فروری 2017 کو یحیٰ السنوار اسماعیل ہنیہ کی جگہ غزہ پٹی میں حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ منتخب ہوئے اور انہوں نے خلیل الحیا کو اپنا نائب مقرر کیا اور پھر یحیٰ السنوار کو پارٹی انتخابات کے ذریعے غزہ پٹی میں حماس کا سربراہ مقرر کر دیا گیا اور اسماعیل ہنیہ کو خالد مشعال کا جانشین بنا دیا گیا۔
برطانوی اخبار دی گارجین کی 2017 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق یحیٰ السنوار کے حماس میں آنے سے فلسطینی مزاحمتی تنظیم کے سیاسی اور عسکری ونگ میں اندرونی رسہ کشی ختم ہوگئی اور حماس کی پالیسی کو غزہ کے چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے دوبارہ سے وضع کیا گیا اور یحیٰ السنوار کا انتخاب واضح اشارہ ہے کہ گزشتہ لیڈر شپ کی نسبت حماس کی موجودہ لیڈر شپ کی سیاسی و عسکری سرگرمیوں کا مرکز و محور غزہ ہو گا۔
مئی 2018 میں یحیٰ السنوار نے الجزیرہ پر آکر غیر متوقع اعلان کر دیا کہ حماس پرامن عوامی مزاحمت کی پالیسی اپنائے گی جس کا مقصد ممکنہ طور پر حماس پر بہت سے مملک کی جانب سے لگا دہشتگرد تنظیم کا ٹیگ اتارنا اور اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کیلئے کردار ادا کرنا تھا، اس اعلان سے ایک ہفتہ قبل یحیٰ السنوار نے غزہ کے شہریوں سے کہا تھا کہ اسرائیلی زنجیریں توڑ دیں، ہم دب کر مرنے سے شہید ہونے کو ترجیح دیں گے، ہم مرنے کے لیے تیار ہیں اور ہزاروں لوگ ہمارے ساتھ مریں گے۔
مارچ 2021 میں یحیٰ السنوار دوسری مدت کے لیے غزہ میں حماس کے سربراہ منتخب ہوئے اور انہیں غزہ کا ڈی فیکٹو حکمران تصور کیا جانے لگا اور انہیں حماس میں اسماعیل ہنیہ کے بعد دوسرا طاقتور ترین شخص مانا جانے لگا۔
مئی 2021 میں اسرائیلی فورسز کی جانب سے خان یونس میں یحیٰ السنوارکے گھر پر بمباری کی گئی تاہم اس حملے میں کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ملی اور پھر حملے کے اگلے ہفتے یحیٰ السنوارکئی بار عوام میں دیکھے گئے اور پھر 27 مئی 2021 کو انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینتز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے قدموں پر چل کر اپنے گھر جاؤں گا، تمھارے پاس مجھے قتل کرنے کے لیے 60 منٹ ہیں اور پھر وہ اگلے گھنٹے غزہ کی گلیوں میں گھومتے رہے اور سلیفیاں لیتے رہے۔
غزہ میں جاری حالیہ جنگ کے ابتدائی تین ہفتوں کے بعد یحیٰ السنوارنے اسرائیل کو پیشکش کی تھی کہ یرغمال بنائے گئے تمام اسرائیلیوں کے بدلے قید بنائے گئے تمام فلسطینیوں کو رہا کر دیا جائےلیکن اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے حماس کی پیشکش قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے زمینی کارروائی کا فیصلہ کیا جس کا نقصان انہیں مزید اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت اور فوجی گاڑیوں کی تباہی کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔
31 جولائی 2024 کو ایرانی دارالحکومت تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی اسرائیلی حملے میں ہلاکت نے بعد 6 اگست 2024 کو یحییٰ السنوار کو حماس کے سیاسی ونگ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔