26 اگست ، 2024
صحرائے تھر میں کوئلے سے بننے والی بجلی ملک کے مختلف کونوں کو روشن کررہی ہے لیکن ضلع تھر پارکر کے نوے فیصد گاؤں آج بھی بجلی سے محروم ہیں۔
سندھ کے پسماندہ علاقے ضلع تھرپارکر کی تحصیل اسلام کوٹ سے کالا سونا نکلنے سے یہ امید ہوچلی تھی کہ شاید تھر کے باسیوں کا معیار زندگی بلند ہوگا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
ایک جانب تھر کی زمین سے سالانہ سوا کروڑ ٹن کوئلہ نکال کر زرمبادلہ کمایا جارہا ہے تو دوسری جانب تھرسے بجلی پورے ملک کوروشن کررہی ہے مگر یہ بجلی تھر کے باشندوں کی زندگی میں روشنی نہ کرسکی ہے۔
تھری باسی شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ دن بھر اچھے مستقبل کیلئے محنت کرکے گھر پہنچنتے ہیں تو اندھیرے ان کے منتظر ہوتے ہیں اور رات کے اندھیرے میں کھانا بنانے کیلئے روشنی بھی جلنے والے چولہے سے میسر ہوتی ہے۔
تھر کی خواتین کا کہنا ہے دن بھر گھریلو کام کاج نمٹا کر رات کو سوجاتے ہیں، ہمارے پاس رات کو اتنی روشنی نہیں ہے کہ ہاتھ کے ہنر کا کوئی کام بھی کر سکیں، ہمیں بجلی مل جائے تو پانی کا مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے۔
اہلیان تھر نے کہا کہ اس وقت بلاک ون اور بلاک ٹو سے 2640 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے حکومت فی صارف ماہانہ 8 سو روپے تک سبسڈی بھی فقط تحصیل اسلام کوٹ کے صارفین کو فراہم کر رہی ہے۔
تھر کے باسیوں کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے تھرپارکر میں اربوں روپے کے توانائی کے منصوبے اپنی جگہ لیکن ان منصوبوں سے ان کے گھر کب روشن ہوں گے یہ حکومت کو بتانا ہوگا۔