Time 11 ستمبر ، 2024
بلاگ

اسرائیلی اخبار کا مضمون اور عمران خان

اسرائیل کے معروف اخبار ’’ٹائمز آف اسرائیل‘‘ کا شمار اسرائیل کے صف اول اخبارات میں ہوتا ہے۔ یہ اخبار اسرائیل اور مغربی ممالک میں مقیم یہودی کمیونٹی میں نہایت مقبول ہے اور اخبار میں شائع ہونے والے مضامین انتہائی اہمیت رکھتے ہیں جنہیں اسرائیلی حکومت کی اشیرباد حاصل ہوتی ہے۔ 

گزشتہ دنوں ’’ٹائمز آف اسرائیل‘‘ میں An Unlikely Ally: "How Imran Khan Could Shape Israel-Pakistan Relations" (ایک غیر متوقع اتحادی :عمران خان پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کیسے استوار کر سکتے تھے) کے عنوان سے شائع ہونے والے مضمون نے پاکستان کی سیاست میں ہلچل مچادی ہے۔ یہ مضمون ایک خاتون یہودی صحافی اینور بشیروا نے تحریر کیا ہے جس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کو پاک اسرائیل تعلقات استوار کرنے کیلئے سب سے موزوں ترین شخصیت قرار دیا گیا ہے۔ 

مضمون میں تحریر ہے کہ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں اپنی سابقہ اہلیہ جمائما کے گولڈ اسمتھ خاندان کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ کس طرح رابطے استوار کئے اور اسرائیلی حکومت کو یقین دلاتے رہے کہ وہ پاکستان، اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے سنجیدہ ہیں۔ مضمون میں یہ بھی تحریر ہے کہ پاکستان دیگر اسلامی ممالک کے مقابلے میں طویل عرصے سے فلسطینیوں کی تحریک آزادی کا مضبوط ترین حامی ہے جس کی جڑیں پاکستانی معاشرے اور آئین میں رچی بسی ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ اقوام متحدہ سمیت ہر بین الاقوامی فورم پر فلسطینیوں کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت کی ہے اور اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان کی شناخت سے متصادم ہے۔ 

عمران خان نے یہی اسرائیل مخالف بیانیہ عوامی سطح پر علانیہ طور پر دہرایا لیکن وہ پس پردہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوششوں میں لگے رہے۔ مضمون نگار لکھتی ہیں کہ عمران خان، مغرب اور اسلامی دنیا کے درمیان فاصلوں کو ختم کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتے ہیں، اس لئے اسرائیل اور اس کے اتحادی مغربی ممالک عمران خان کو سیاست اور حکومت میں واپس لانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ عمران خان دور حکومت میں اس طرح کی خبریں منظر عام پر آتی رہیں کہ ’’پاک، اسرائیل تعلقات استوار کرنے میں عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔‘‘ یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ جمائما کی گولڈ اسمتھ فیملی برطانوی اشرافیہ کا حصہ ہے اور اس خاندان کا اسرائیل نواز لابی سے گہرا تعلق ہے۔ 

عمران خان بھی اپنی سابقہ اہلیہ کے بھائی زیک گولڈ اسمتھ کو برطانوی سیاست میں لانے اور ان کی لندن کے میئر کے عہدے کیلئے انتخابی مہم میں پیش پیش رہے۔ انہوں نے 2016میں میئر لندن کے الیکشن میں ایک مسلمان پاکستانی نژاد صادق خان کے مقابلے میں یہودی نژاد زیک گولڈ اسمتھ کی حمایت کا اعلان کیا تھا جس پر عمران خان کو پاکستان اور برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہودی فیملی سے عمران خان کے گہرے تعلقات کی بناپر مولانا فضل الرحمن، حکیم محمد سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد جیسی شخصیات بھی عمران خان کو ’’یہودی ایجنٹ‘‘ قرار دیتی رہی ہیں۔

اسرائیلی اخبار میں حالیہ مضمون کی اشاعت اور گولڈ اسمتھ خاندان سے عمران خان کی وفاداری آنے والے دنوں میں بانی پی ٹی آئی کی شہرت میں کمی اور مشکلات میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ گوکہ عمران خان اپنے دور حکومت میں فلسطین کے حق میں آواز بلند کرتے رہے جو محض لب کشائی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی تاہم انہوں نے عوامی بیانات اور اسرائیل کے ساتھ پس پردہ تعلقات میں توازن برقرار رکھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان، اسرائیل سے متعلق پاکستان کے روایتی موقف پر نظرثانی کا ارادہ رکھتے تھے اور مشرق وسطیٰ کی تیزی سے بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاست کو دیکھتے ہوئے یہ بات خارج از امکان نہیں تھی کہ عمران خان اپنے دور ِحکومت میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرنے کیلئے پیشرفت کرسکتے تھے۔

پاکستان میں فلسطینی عوام کیلئے محبت کوئی سیاسی معاملہ نہیں بلکہ پاکستانیوں کی رگوں میں رچی بسی ہے جس کی عکاسی پاکستان کی سرکاری پالیسی سے بھی ہوتی ہے۔ ایسے میں جب غزہ میں خواتین اور بچوں سمیت 40 ہزار سے زائد فلسطینی، قابض اسرائیلی فوج کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور اسرائیل کے خلاف پاکستانیوں کے جذبات انتہا پر ہیں، اسرائیلی اخبار میں عمران خان کی حمایت میں شائع مضمون بانی پی ٹی آئی کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنے گا جس سے نہ صرف سیاسی مخالفین فائدہ اٹھائیں گے بلکہ عمران خان کی مقبولیت میں بھی کمی واقع ہوگی۔

 اسرائیل اور اس کے اتحادی مغربی ممالک، عمران خان کو سیاست اور حکومت میں واپس لانے کیلئے پہلے ہی سرگرم دکھائی دیتے ہیں اور عمران خان کو آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بنانے کی مغربی کوشش بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ آکسفورڈ کا چانسلر بناکر اُن کے قد میں اضافہ اور انہیں ایسے عالمی لیڈر کے طور پر پیش کیا جائے جس نے پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے نفاذ کیلئے اپنا کردار ادا کیا۔ بعد ازاں ملالہ یوسف زئی کی طرح عمران خان کو بھی نوبل پرائز کیلئے نامزد کیا جائے اور انہیں اقتدار میں لاکر اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کیا جائے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔