Time 12 ستمبر ، 2024
کاروبار

منی بجٹ کی تیاریاں؛ ٹیکس نادہندگان کے اکاؤنٹ منجمد، گاڑیاں اور جائیداد نہیں خرید سکیں گے

منی بجٹ کی تیاریاں؛ ٹیکس نادہندگان کے اکاؤنٹ منجمد، گاڑیاں اور جائیداد نہیں خرید سکیں گے
اگر ٹیکس میں کمی ہوئی تو آئی ایم ایف منی بجٹ کے ذریعے اضافی ٹیکس اقدامات کا مطالبہ کر سکتا ہے: ذرائع۔ فوٹو فائل

اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیونے نے منی بجٹ کی تیاریاں شروع کر دیں جس میں ٹیکس نادہندگان کے اکاؤنٹ منجمد کرنے کے ساتھ ان کے گاڑیاں اور جائیداد خریدنے پر پابندی جیسی سخت تجاویز شامل ہیں۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ایک منی بجٹ کے ذریعے زبردست ٹیکسیشن اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن میں ٹیکس سے بچنے والے لاکھوں افراد کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے، املاک اور گاڑیوں کی خریداری پرپابندی لگانے اوربجلی وگیس کے کنکشن جیسی یوٹیلٹیز کے کنکشن کاٹنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

 آئی ایم ایف کے 7ارب ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلیٹی (EFF) پروگرام کے تحت پہلی سہ ماہی (جولائی، ستمبر ) کا ہدف حاصل کرنے میں ممکنہ بڑی کمی کے پیش نظر، ایف بی آر  نے 3.2 ملین ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں ناکامی کے بعد سخت اقدامات تیار کیے ہیں۔

اعلیٰ سرکاری ذرائع نے بدھ کے روز "دی نیوز" کو تصدیق کی کہ ایف بی آر نے 6ملین ریٹرن فائلرز میں سے 2 ملین نِل فائلرز کی نشاندہی کی ہے۔ ایف بی آر نے نان فائلرز کو تین اقسام میں تقسیم کرنے کی تجویز دی ہے اور سب سے پہلے حکومت کو 10لاکھ روپے جرمانے کی سفارش کی ہے، جو غلط یا نامکمل فائل کیے گئے ریٹرنز پر لاگو ہوگا، یہ تمام سخت اقدامات صرف ایک منی بجٹ کے ذریعے پارلیمنٹ کی منظوری سے لاگو کیے جا سکتے ہیں۔ حکومت کو ٹیکس قوانین میں ترمیم کے لیے مالی بل پیش کرنا ہوگا یا ٹیکس مشینری کو وسیع اختیارات دینے کے لیے ایک آرڈیننس نافذ کرنا ہوگا۔

ایف بی آر کی جانب سے تجویز کردہ تین اقسام کے بارے میں، اہلکار نے کہا کہ نِل فائلرز کو ایف بی آر کی طرف سے سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا، جس میں بینک اکاؤنٹس کو منجمد کرنا اور جائیداد یا گاڑیوں کی خریداری پر فوری طور پر پابندی شامل ہے۔ ٹیکس چوری کی بنیاد پر 5لاکھ سے 10لاکھ روپے تک کے ٹیکس کی عدم ادائیگی پر بجلی اور گیس کی سہولیات منقطع کر دی جائیں گی۔ 

ایف بی آر نے 5 لاکھ نان فائلرز کے موبائل فون منقطع کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ 

تیسری قسم میں، ایف بی آر نے تجویز کیا ہے کہ اگر ٹیکس چوروں نے ایک ملین یا اس سے زیادہ کے تحت فائلز کی ہوں تو ایف بی آر ان کے خلاف مزید اقدامات کی تجویز دے گا۔

ایف بی آر کی تیار کردہ تجاویز کے مطابق، ٹیکس مشینری نے ٹیکس نان کمپلائنس کو روکنے پر مبنی پالیسی میں تبدیلیاں کرنے کی تجویز دی ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو غلط یا نامکمل ٹیکس ریٹرن جمع کراتے ہیں۔ یہ اقدامات تمام شعبوں میں لاگو ہوں گے، جن میں ٹیر 1کے ریٹیلرز اور مینوفیکچررز شامل ہیں، اور سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس دونوں پر محیط ہوں گے۔

ہر غلط/نامکمل ریٹرن فائل کرنے پر 10لاکھ روپے جرمانے کے علاوہ، ایف بی آر نے کچھ تادیبی اقدامات بھی تجویز کیے ہیں تاکہ درست ریٹرن فائلنگ کو یقینی بنایا جا سکے، جن میں غلط یا نامکمل ریٹرن فائل کرنے والے تمام افراد کی سہولیات منقطع کرنا، بینک اکاؤنٹس منجمد کرنا، اور جائیداد یا گاڑی کی خریداری پر پابندی شامل ہے۔

ایف بی آر نے تجویز دی ہے کہ غلط یا نامکمل ریٹرن فائل کرنے والوں کے لیے شفافیت میں اضافہ کیا جائے اور ان کی نگرانی کے لیے تھرڈ پارٹی کی خدمات حاصل کی جائیں۔ ایف بی آر مصنوعی ذہانت اور منی لانڈرنگ سے متعلق فوری اور مکمل آڈٹ کا استعمال کرے گا تاکہ غلط یا نامکمل ریٹرن فائل کرنے والوں کی جانچ کی جا سکے۔

سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ایف بی آر کی کچھ داخلی تشخیص سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ پہلی سہ ماہی (جولائی ستمبر) کے دوران 2652 ارب روپے کے طے شدہ ہدف کے مقابلے میں 220 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس خسارہ متوقع ہے۔ ایف بی آر کا سالانہ ٹیکس جمع کرنے کا ہدف 12970ارب روپے ہے، جسے پارلیمنٹ نے منظور کیا ہے (12913ارب روپے) اور آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ مالی سال کے لیے اتفاق کیا گیا ہے۔

ایف بی آر کو اگست 2024میں ٹیکس ہدف حاصل کرنے میں 98ارب روپے کا خسارہ ہوا تھا۔ ایف بی آر نے پہلے دو مہینوں (جولائی اور اگست) میں 1456ارب روپے جمع کیے تھے، جبکہ اس کا طے شدہ ہدف 1554ارب روپے تھا۔ اب ایف بی آر کو ستمبر کے مہینے میں 1196ارب روپے جمع کرنے کا مشکل چیلنج درپیش ہے تاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ پہلی سہ ماہی کے ہدف کو پورا کیا جا سکے۔ 

اگر ٹیکس میں کمی ہوئی تو آئی ایم ایف منی بجٹ کے ذریعے اضافی ٹیکس اقدامات کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ اب ایف بی آر نے اپنے ہوم ورک کا آغاز کر دیا ہے تاکہ آئندہ منی بجٹ کے ذریعے سخت اقدامات متعارف کرائے جائیں، بجائے اسکے کہ موجودہ ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالا جائے۔ ان لوگوں کو سزا دینے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے جو ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے سے انکار کر رہے ہیں۔

مزید خبریں :