Time 23 ستمبر ، 2024
کاروبار

ڈالرزکی غیر قانونی فروخت میں ملوث بینکوں پرکم جرمانہ کرنے پر اسٹیٹ بینک سے جواب طلب

ڈالرزکی غیر قانونی فروخت  میں ملوث بینکوں پرکم جرمانہ کرنے پر اسٹیٹ بینک سے جواب طلب
سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ یہ پورے پاکستان کا ایشو تھا مگر اسٹیٹ بینک کو علم نہ تھا، فوٹو: فائل

اسلام آباد: ڈالرز کی غیر قانونی فروخت سے 65 ارب روپے کمانے والے کمرشل بینکوں پر صرف ایک ارب 40 کروڑ روپے جرمانہ کرنے پر اسٹیٹ بینک سے سینیٹ کمیٹی نے جواب طلب کرلیا۔

سینیٹ قائمہ کمیٹی اقتصادی امور کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سیف اللہ ابڑو کی زیر صدارت ہوا۔

سینیٹر کامل آغا کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کی سب سے بڑی غلطی تسلیم کرنا ہےکہ کہ بینکوں نے 2022 میں  اوورانوائسنگ کی، معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہونے کے بعد ضابطے کی کارروائی کی۔

حکام اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ بینکوں کی آمدن پر ایف بی آر  نےگزشتہ سال 10فیصد سپر ٹیکس عائد کیا تھا، تاہم بعد میں یہ معاملہ عدالت میں گیا اور  اب وہاں زیرسماعت ہے۔

سیف اللہ ابڑو کا کہنا تھا کہ  اسٹیٹ بینک حکام 65 ارب روپے نہیں مان رہے، وزیرخزانہ نے خود  الزام لگایا تھا،  اسٹیٹ بینک حکام تفصیلات فراہم کرنےکو  تیار  نہیں،  اس معاملے پر تمام تفصیلات 3 دن میں فراہم کی جائیں۔

کامل آغا نے کہا کہ  جب تک کمیٹی اجلاس میں وفاقی وزیر اور سیکرٹری نہیں ہوں گے معاملہ حل نہیں ہوگا۔

کامران مرتضیٰ نے سوال کیا کہ  کیا اسٹیٹ بینک نے تعین کیا کہ اس کی طرف کیا کمزوری تھی  اور کون  افراد ملوث تھے؟ 65 ارب روپے کی غیر قانونی سرگرمی پر  جرمانہ صرف ایک ارب 40 کروڑ روپے کیوں کیا گیا؟

حکام اسٹیٹ بینک نے جواب دیا کہ  اسٹیٹ بینک کا اس میں کوئی کردار نہیں تھا،یہ معاملہ دو تین ماہ چلا  اور  پھر اسٹیٹ بینک نے کارروائی کی۔

رانا محمود الحسن کا کہنا تھا کہ  اسٹیٹ بینک پانچ مہینے سویا رہا اور پھر کارروائی کی۔

سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ  یہ پورے پاکستان کا ایشو تھا مگر  اسٹیٹ بینک کو علم نہ تھا، یہ اسٹیٹ بینک کی کارکردگی ہے؟  آپ تمام تفصیلات تین دن میں فراہم کر دیں۔

حکام اسٹیٹ بینک  نےکہا کہ  تین دن کم ہیں اس کو بڑھادیں۔

اس پر سیف اللہ ابڑو کا کہنا تھا کہ  یہ ڈیٹا تو موجود ہوگا اس کے لیے اتنے دن کافی ہیں  پھر بھی اس کو دو ہفتے کردیتے ہیں تاکہ فیصلہ ہو سکے۔

مزید خبریں :