کاروبار

پی آئی اے کی نجکاری کیلئے بولی یکم اکتوبر کو ہوگی، سیکرٹری نجکاری کمیشن

اسلام آباد: سیکرٹری نجکاری کمیشن کا کہنا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے لیے بولی یکم اکتوبر ہوگی۔

آج  قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کا اجلاس  فاروق ستار کی زیر صدارت ہوا جس میں سیکرٹری نجکاری کمیشن نے کہا کہ پی آئی اے کی بولی یکم اکتوبر کو ہو گی جس کی حتمی منظوری کابینہ دے گی۔

کمیٹی کے چیئرمین فاروق ستار نے کہا پی آئی اے ملازمین کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں کٹوتی نہیں ہونی چاہیے۔

کمیٹی کے اجلاس میں سحر کامران کی جانب سے معاہدے کا ڈرافٹ کمیٹی میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا جس پر سیکرٹری نجکاری کمیشن نے کہا کہ ڈرافٹ غور کرنےکے لیے سرمایہ کاروں کو دیا گیا ہے، اس ڈرافٹ کی ابھی کابینہ نے بھی منظوری دینی ہے۔

سحر کامران کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری کاعمل سمجھ بوجھ سے کرنا چاہیے یہ نہ ہو کل آئی پی پیز کے معاہدوں کی طرح پچھتانا پڑے ۔

سیکرٹری نجکاری کمیشن نے کہا کہ قومی ائیر لائن خریدنے والی کمپنی کو نئے جہاز  لینا ہوں گے اور جہازوں کا فلیٹ 18 سے بڑھا کر 3  سال میں 45 کرنا ہوگا۔

سیکرٹری نجکاری کمیشن کی جانب سے بتایا گیا کہ پی آئی اے کا عملہ دو سے تین سال تک رکھا جائے گا اور  روٹس بحال رہیں گے جبکہ یورپ کی پابندی اٹھا نے کے لیے بات چیت ہو رہی ہے۔

سیکرٹری نجکاری کمیشن نے بتایا کہ معاہدےکی خلاف ورزی پرخریدار کمپنی کے خلاف کارروائی ہو سکے گی، خریدار کمپنی کو آتےہی 65 سے70 ارب روپے تک سرمایہ کاری کرنا پڑےگی۔

سیکرٹری نجکاری کمیشن نے کمیٹی کو بتایا کہ پی آئی اے کے ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن 35 ارب روپے بنتی ہے، پہلے سے ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن حکومت ادا کرے گی۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ حکومت نے پی آئی اےکے 800 ارب روپےکے قرض میں سے 600 ارب اپنے ذمہ لے لیے، مجموعی طور پر اب پی آئی اے پر کوئی قرض نہیں ہے، اب سرمایہ کاروں کے لیے اس ائیر لائن کو منافع بخش بنانے کا امکان ہے۔

سیکرٹری نجکاری کمیشن نے بتایا کہ  پی آئی اے کو نجکاری کے بعد تربیت یافتہ عملہ رکھنا ہوگا، پی آئی اے کے تربیت یافتہ عملے کو برقرار رکھا جائے گا۔

اجلاس میں پی آئی کے سی ای او نے کہا کہ پی آئی اے کی سیفٹی عالمی معیار کے مطابق ہے، برطانیہ کے لیے فلائٹس جلد بحال ہونے کا امکان ہے۔

سی ای او پی آئی نے بتایا کہ اس وقت ہمارے پاس 320 پائلٹ ہیں، نئے سرمایہ کاروں کو کیبن کریو اور آئی ٹی کا عملہ رکھنا پڑے گا۔

مزید خبریں :