28 ستمبر ، 2024
اسرائیلی فوج نے حزب اللہ سربراہ حسن نصر اللہ کی بیروت حملے میں ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔
گزشتہ روز اسرائیل نے بیروت میں حزب اللہ کے ہیڈکوارٹر پر حملہ کیا تھا جس میں لبنان کی مزاحمتی تنظیم کے سربراہ حسن نصر اللہ سمیت میزائل یونٹ کے سربراہ اور ان کے نائب کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔
حزب اللہ ذرائع نے اسرائیلی حملے میں حسن نصر اللہ کی شہادت کی تردید کرتے ہوئے ان کے صحتمند ہونے کا دعویٰ کیا تھا تاہم لبنان کی جانب سے اس حوالے سے کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا تھا۔
اب ایک بار پھر اسرائیل کی ڈیفنس فورس نے سوشل میڈیا پوسٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ حسن نصر اللہ اسرائیلی حملے میں مارے گئے ہیں تاہم اسرائیل کی جانب سے بھی اس حوالے سے کسی قسم کے ثبوت فراہم نہیں کیے گئے ہیں۔
غیر ملکی خبر ایجنسی اے ایف پی نے حزب اللہ ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ حسن نصراللہ سے رابطہ گزشتہ شام سے منقطع ہے۔
اسرائیلی فوج نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حزب اللہ کے سینئر رہنما علی کرکی بھی فضائی حملے میں مارے جا چکے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلی میڈیا نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ بیروت میں ہونے والے حملے میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی بیٹی فاطمہ نصر اللہ بھی ماری جا چکی ہیں۔
حسن نصراللہ اپنے پیشرو عباس الموسوی کے اسرائیلی گن شپ ہیلی کاپٹر سے قتل کے بعد 1992 میں صرف 32 سال کی عمر میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے تھے۔
انہوں نے عراق کے شہر نجف میں تین سال تک سیاست اور قرآن کی تعلیم حاصل کی، یہیں ان کی ملاقات لبنانی امل ملیشیا کے رہنماسید عباس موسوی سے ہوئی، 1978 میں حسن نصراللہ کو عراق سے بے دخل کر دیا گیا۔
لبنان کے خانہ جنگی کی لپیٹ میں آنے کے بعد حسن نصراللہ نے امل تحریک میں شمولیت اختیار کر لی ، انھیں وادی بقاع میں امل ملیشیا کا سیاسی نمائندہ مقرر کیا گیا۔
اسرائیلی فوج کے 1982 میں بیروت پر حملےکےبعد حسن نصراللہ، امل سے علیحدہ ہوکر حزب اللہ میں شامل ہوئے۔
حسن نصراللہ کی قیادت میں حزب اللہ اسرائیل کی ایک اہم مخالف تنظیم کے طور پر ابھری، حسن نصر اللہ کا اصرار ہے کہ اسرائیل بدستور ایک حقیقی خطرہ ہے۔
حماس کے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد سے حزب اللہ لبنان، اسرائیل سرحد کے ساتھ تقریباً روزانہ اسرائیلی فوجیوں سے لڑتی رہی ہے۔