Time 02 اکتوبر ، 2024
بلاگ

واہ مولانا واہ

دور طالب علمی میں ڈاکٹر فاروق مرحوم کے دلائل سے آئینی کورٹ کی اہمیت کا قائل ہوگیا تھا اور تب سے لے کر اب تک نہ صرف اس کی اہمیت کا قائل ہوں بلکہ گاہے گاہے اس کے لئے آواز بھی اٹھاتارہاہوں لیکن موجودہ حکومت کا المیہ یہ ہے کہ صحیح کام بھی غلط وقت پر غلط طریقے سے کرتی ہے ۔

کسی کو دکھائے بغیر اور کسی سے مشورہ کئے بغیر یکدم غلغلہ بلند ہوا کہ پارلیمنٹ سے آئینی اصلاحات کا بل پاس ہونے کو ہے حالانکہ حکومت کے پاس ارکان کی تعداد پوری نہیں تھی اور اس کے لئے مولانا فضل الرحمان کی حمایت درکار تھی۔ تمام ایم این ایز اور سینیٹرز کو اسلام آباد میں ٹھہرے رہنے کا حکم ملااور اتوار کا دن بھی ان کو یہاں گزارنا پڑا لیکن لوگ ایک دوسرے سے مسودے کا پوچھتے رہے تو کابینہ کے وزرا کے پاس بھی مسودہ موجود نہیں تھا۔ حکومت مصر تھی کہ وہ بل پاس کرنا چاہتی ہے لیکن کسی کو مسودہ دکھانے کے لئے تیار نہ تھی جیسے وہ بل نہیں بلکہ ایٹمی پروگرام سے متعلق کوئی خفیہ دستاویز ہے ۔ حکومتی ممبران تو قیادت کے حکم کے پابند تھے لیکن مولانا فضل الرحمان کی تو ایسی کوئی مجبوری نہیں تھی۔ تاہم حکومت کی طرف سے یہ تاثردیا جارہا تھا کہ جیسے مولانا بھی آن بورڈ ہیں لیکن مولانا سے کسی نے کوئی بات نہیں کی تھی ۔

 حکومت کو یہ خوش گمانی تھی کہ مولانا سے خاص لوگوں کی بات ہوچکی ہوگی لیکن حقیقت یہ ہے کہ انتخابات کے بعد خاص لوگوں اور مولانا کے تعلقات کشیدہ ہیں اور سچ مچ انہیں بل کے مسودے کا کوئی علم نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت ان کے پاس گئی اور ان کی منت کی کہ مولانا پلیز مان جائیں نا ۔ وہ منت ترلہ کرتے رہے لیکن مولانا نے کہا کہ وہ مسودہ تو دکھا دیں جس کی منظوری میں آپ تعاون مانگ رہے ہیں تو خود ان کے پاس بھی مسودہ نہیں تھا۔ پھر جب وزیراعظم شہباز شریف ان سے ملنے گئے تو خیال یہ تھا کہ وہ بل کا مسودہ لے گئے ہوں گے اور مولانا سے شق وار حمایت مانگ رہے ہوں گے لیکن وہ بھی بغیر مسودے کے گئے تھے اور صرف منت ترلے کے ذریعے مولانا کو قائل کرنا چاہ رہے تھے لیکن مولانا ماننے کو تیار نہیں تھے ۔ رات گئے مولانا کے پاس کالے لفافے میں مسودہ بھیج دیا گیا جسے دن کو انہوں نے اپنے وکلا کے ساتھ ڈسکس کیا ۔ بقول مولانا کے ان کے وکلا نے ان سے کہا کہ اس میں صرف آئینی عدالت کا ذکر نہیں بلکہ اس میں کالا ناگ بھی چھپا ہوا ہے ۔ چنانچہ مولانا نے بل کی حمایت کسی صورت نہ کرنے کا عندیہ دیا اور اتحادی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ قید سے آزاد ہوکر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔

حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران تینوں بڑی جماعتوں سے چن چن کر اپنے بدلے لئے ۔مولانا کا پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد ناممکنات میں سے نظر آتا ہے لیکن وہ دروازہ مکمل بند نہیں کررہے ہیں اور روزانہ پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو اپنی چوکھٹ پر حاضر کروا کر ان سے اپنی اقتدا میں نماز پڑھواتے ہیں ۔ مولانا کو پی ٹی آئی نے جو گالیاں دی تھیں اس طریقے سے چن چن کر انہوں نے ان سے بدلے لئے بلکہ اب پی ٹی آئی کا ہر ممبر مولانا کو حضرت مولانا فضل الرحمان کہہ کر پکارتاہے ۔مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی نے بھی مولانا کے ساتھ بڑی بے وفائی کی تھی ۔

مولانا پی ڈی ایم کے صدر تھے لیکن الیکشن کے بعد یہ دونوں جماعتیں حکومت سازی کے لئے بیٹھ گئیں اور مولانا کو پوچھا تک نہیں ۔ حتیٰ کہ نواز شریف وغیرہ نے انہیں فون تک بھی نہیں کیا۔وہ دونوں جماعتیں گزشتہ چھ ماہ حکومت کے مزے لوٹتی رہیں اور مولانا ڈٹ کر اپوزیشن کرتے رہے ۔اب جبکہ پارلیمنٹ میں مولانا کی ضرورت محسوس ہوئی تو انہوں نے پے درپے مولانا کے گھر کے دورے شروع کئے۔ ایساوقت بھی آیاکہ ایک پارٹی کا وفد ایک کمرے میں ملاقات کررہا ہے اور دوسری کی قیادت کا وفددوسرے کمرے میں انتظار کررہا ہے ۔ یوں مولانا نے خوب اپنا انتقام لے لیا لیکن بل کی حمایت پھر بھی نہیں کی ۔مولانا کا کمال دیکھئے کہ ان حالات میں بھی سب کے ساتھ دروازے کھلے ہیں ۔ بلاول کے ساتھ ملاقات میں یہ طے ہوا کہ پچھلا مسودہ گیا بھاڑ میں ۔ ایک نیامسودہ پیپلز پارٹی بنائے گی اور ایک مسودہ جے یو آئی بنائے گی ۔

پھر ان میں سے ایک مشترکہ مسودہ نکالا جائے گا ۔ واضح رہے کہ مولانا کو آئینی عدالت پر اعتراض نہیں کیوں چارٹر آف ڈیموکریسی کی رو سے وہ بھی ماضی میں اس کی حمایت کر چکے ہیں لیکن انہیں فوجی عدالتوں جیسے نکات پر اعتراض ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے ساتھ ان کی یہ انڈر اسٹینڈنگ ہے کہ چونکہ ہمارا باقاعدہ اتحاد نہیں ہوا اس لئے ہم کوئی فیصلہ کرتے وقت ایک دوسرے کے پابند نہیں لیکن میں کوشش کروں گا کہ پی ٹی آئی کے زیادہ سے زیادہ نکات کو حکومتی مسودےمیں جگہ دلوا دوں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت نیا مسودہ کیا سامنے لے کر آتی ہے؟ مولانا ان سے اپنے گھر کے اور کتنے دورے کرواتے ہیں اور ان کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرتے بھی ہیں یا نہیں؟ واہ مولانا واہ!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔