Time 11 اکتوبر ، 2024
کاروبار

حکومت با اثر کاروباروں کو سبسڈی یا ٹیکس سہولیات فراہم کرتی ہے: آئی ایم ایف

حکومت با اثر کاروباروں کو سبسڈی یا ٹیکس سہولیات فراہم کرتی ہے: آئی ایم ایف
پاکستان کو حکومتی ملکیتی اداروں میں اصلاحات کو تیز کرنا ہوگا، ٹیکس آمدن بڑھانا ہوگی اور اخراجات میں کمی کرنا ہوگی: دستاویز/ فائل فوٹو

اسلام آباد: عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت با اثر کاروباروں کو سبسڈی یا ٹیکس سہولیات فراہم کرتی ہے جس سے مسابقت اور پیداواری صلاحیت متاثر ہوئی۔ 

جیونیوز کو موصول آئی ایم ایف کی دستاویز میں کہا گیا ہےکہ پاکستان کو نئے میکرو اکنامک استحکام، قابل عمل معاشی پالیسیاں اور معاشی اصلاحات پر عملدرآمد کے لیے کام کرنا ہوگا جب کہ نجی شعبے کے لیے سازگار ماحول بھی دینا ہو گا۔ 

آئی ایم ایف نے کہا کہ پاکستان کو حکومتی ملکیتی اداروں میں اصلاحات کو تیز کرنا ہوگا، ٹیکس آمدن بڑھانا ہوگی اور اخراجات میں کمی کرنا ہوگی، حکومت با اثر کاروباروں کو سبسڈی یا ٹیکس سہولیات فراہم کرتی ہے جس سے مسابقت متاثر ہوئی اور پیداواری صلاحیت متاثر ہوئی۔

آئی ایم ایف کے  مطابق پاکستان کی شرح نمو مالی سال 2024-2025 سے 2029-2028کے درمیان3.2 سے 4.5 فیصد رہنے کا اندازہ ہے اور اس دوران مہنگائی ساڑھے 9 سے ساڑھے 6 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ 

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چند دہائیوں میں جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں معیار زندگی کم ہوا ہے، پاکستان کو مضبوط معاشی پالیسیوں اور اصلاحات پر عملدرآمد کی ضرورت ہے، پاکستان نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں مناسب سرمایہ کاری نہیں کی، پاکستان میں غریب 40 فیصد ہے جب کہ ملک میں زیادہ پیداواری ملازمتوں کی قلت ہے۔

دستاویزات کے مطابق ماضی میں پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ اصلاحات پر عملدرآمد نہیں کیا اور نہ ہی دو دہائیوں میں عالمی تجارت کاحصہ بننے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جس کی وجہ سے پاکستان اپنی برآمدات میں اضافہ نہیں کر سکا  جب کہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے بھی برآمدات میں علاقائی ممالک کی طرح اضافہ نہیں ہوا۔ 

آئی ایم ایف کا بتانا ہے کہ پاکستان کو پروگرام کےدوران دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے14 ارب ڈالر کی فنانسنگ ملنے کی امید ہے، حکومت پر سیاسی عدم استحکام کے باعث اصلاحات اور ٹیکسوں میں کمی کا دباؤ رہے گا اور سیاسی کشیدگی سے معاشی استحکام متاثر ہو سکتا ہے۔

دستاویز کے مطابق حکومت نے ٹیکس وصولی کو جی ڈی پی کے 12.3 فیصد کے برابر لانے پر اتفاق کیا ہے، رواں مالی سال 1723 ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات کیے گئے ہیں۔ 

آئی ایم ایف کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ مرکزی بینک مائیکرو فنانس بینکوں کی مالی حالت مستحکم کرنے کیلئے اقدامات کرے، اسٹیٹ بینک کم کیپیٹل رکھنے والے بینکوں کی ری کیپیٹلائز کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے جب کہ ملکی فنانشل سیکٹر میں وسعت کے لیے انشورنس اور پنشن فنڈز کو فروغ دیا جائے۔

دستاویز میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ حکومت جنوری 2025 تک ڈسکوز کو نجی شعبے کی انتظامیہ کے حوالے کرنے کا کام مکمل کرے گی، کیپیسٹی پیمنٹس کو کم کرنے کے لیے بجلی خریداری معاہدوں کو دوبارہ مذاکرات کے ذریعے طے کیا جائے، آئندہ سال جنوری سے مقامی اور درآمدی گیس کی قیمتوں کو ملا کے اوسط ٹیرف لاگو کیا جائے جب کہ جنوری 2025 سے گیس والے کیپٹو پاور پلانٹس کو بند کیا جائے۔ 

آئی ایم ایف نےمطالبہ کیا کہ حکومت گورننس بہتر بنانے اور کرپشن کی تشخیص کے لیے ایک رپورٹ جاری کرے، کرپشن کی شفاف تحقیقات کے لیے نیب کی استعداد بڑھائی جائے، اراکین پارلیمنٹ کی طرح اعلی سرکاری عہدوں پر فائز اشخاص کے اثاثوں کو بھی فروری 2025 تک ڈکلیئر کیا جائے۔

مزید خبریں :