Time 25 اکتوبر ، 2024
پاکستان

26ویں ترمیم، حکومتی ماہر قانون اور سابق اٹارنی جنرل کی رائے میں اختلاف

26ویں ترمیم، حکومتی ماہر قانون اور سابق اٹارنی جنرل کی رائے میں اختلاف
حکومت کے قانونی ماہر اور سابق اٹارنی جنرل دونوں ہی اچھی ساکھ کے حامل ہیں اور آئینی اور قانونی معاملات میں اپنی مہارت کیلئے پہچانے جاتے ہیں۔ 

اسلام آباد: 26ویں آئینی ترمیم کی مسودہ سازی میں خامیوں کے سنگین مضمرات پر حکومت کے ایک سینئر ماہر قانون اور سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان کی رائے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ 

اول الذکر کا کہنا ہے کہ 26ویں ترمیم میں پہلے سے قائم جوڈیشل کمیشن کے متعلق بات کی گئی ہے جبکہ مؤخر الذکر کا اصرار ہے کہ ترمیم میں ایک نئے کمیشن کی تشکیل کا ذکر ہے اور 26ویں ترمیم کی خامی 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بغیر درست نہیں ہو سکتی۔

حکومت کے ماہر اور سابق اٹارنی جنرل (جنہوں نے دی نیوز کو بتایا تھا کہ 26ویں ترمیم میں ترمیم کے بغیر آئینی بینچ تشکیل نہیں دیا جا سکتا) دونوں ہی اچھی ساکھ کے حامل ہیں اور آئینی اور قانونی معاملات میں اپنی مہارت کیلئے پہچانے جاتے ہیں۔ 

جمعرات کی صبح دی نیوز کو حکومت کے سینئر ماہر قانون کی فون کال موصول ہوئی۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے جمعرات 24 اکتوبر کو دی نیوز میں شائع ہونے والی خبر میں اٹھائے گئے مسائل کے حوالے سے حکومت کا موقف واضح کیا۔

دی نیوز کی درخواست پر حکومت کے ماہر قانون نے تحریری طور پر اپنا موقف پیش کیا۔ آئینی بینچ کی تشکیل کے حوالے سے دونوں شخصیات کا تحریری موقف کا دونوں میں تبادلہ کیا گیا جسے یہاں قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ لیکن، حکومت کے ماہر قانون نے چیف جسٹس کی تقرری سے متعلق مسودہ سازی کی غلطی کے ایشو پر جواب دینے سے گریز کیا۔

انہوں نے کہا کہ نامزد چیف جسٹس نے عہدہ قبول کر لیا ہے اور ہفتے کی صبح انہیں حلف اٹھانا ہے۔ ایک بار جب مجھے مسودہ غور سے پڑھنے اور اس پر غور کرنے کا موقع ملے گا تو میں اس پر سوچ بچار کروں گا۔ اس مسئلے کے بارے میں کہ آئینی بنچ تشکیل نہیں دیا جا سکتا (جیسا کہ جمعرات کو دی نیوز کی خبر میں شائع کیا گیا ہے) دونوں فریقین کے خیالات درج ذیل ہیں: حکومتی ماہر قانون کی رائے: جوڈیشل کمیشن کوئی نو تشکیل شدہ ادارہ نہیں ہے۔ صرف رکنیت میں تبدیلی کی جا رہی ہے۔ لہذا، خالی جگہ کی وجہ سے، کسی کارروائی کو باطل نہیں کیا جائے گا۔

 آرٹیکل 175A(3D) سے یہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ اگر جوڈیشل کمیشن آئین کے تحت تشکیل دیا جانے والا ایک نیا ادارہ ہوتا تو اس پر کوئی دلیل ہو سکتی تھی (جیسا کہ دی نیوز کی خبر میں سامنے آیا ہے) تاہم، آرٹیکل 175A کی شق (3D) کی موجودگی میں، جوڈیشل کمیشن کی رکنیت میں خالی جگہ کے بغیر رکنیت کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں۔ سابق اٹارنی جنرل کی رائے: 26ویں ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن ایک نو تشکیل شدہ ادارہ ہے جس کے ارکان نئے ہیں (جن میں ارکان پارلیمنٹ بھی شامل ہیں) جو پہلے کبھی اس کے ممبر نہیں تھے۔ 

26ویں ترمیم کے نفاذ سے پرانے جوڈیشل کمیشن کا وجود 21؍ اکتوبر 2024ء سے ختم ہو چکا ہے۔ آرٹیکل 175A(2) سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کیونکہ اس میں ترمیم نہیں ہوئی بلکہ اس سے ذیلی آرٹیکل بھی تبدیل ہوا ہے جو 175A(2) ہے اور اس میں ایک نئے جوڈیشل کمیشن بنانے کی بات کی گئی ہے۔ لہٰذا، پرانے جوڈیشل کمیشن کا وجود ختم ہو چکا۔ اب صرف نئے مقرر کردہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہی بلایا جا سکتا ہے کیونکہ پرانے کمیشن کا کوئی قانونی وجود نہیں۔ پرانے کمیشن کا اجلاس بلانا آئین میں شامل کردہ نئی شقوں کی صریح خلاف ورزی ہوگی۔

جہاں تک ذیلی آرٹیکل 3D کو لاگو کرنے کا تعلق ہے، یہ صرف اس وقت لاگو ہوگا جب ایک نیا ادارہ یا جوڈیشل کمیشن تشکیل پا چکا ہو۔ اگر اس کے بعد ہونے والے اجلاس میں کوئی اسامی خالی ہوتی ہے تو 3D کا اطلاق ہوگا۔ یہ پہلی تقرری یا پھر نئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر لاگو نہیں ہوتا۔

اگر حکومتی نقطہ نظر کو قبول کیا جاتا ہے، تو آپ صرف نظر انداز کر سکتے ہیں یا حزب اختلاف کے ارکان کی تقرری سے انکار کر سکتے ہیں اور تخفیف شدہ جوڈیشل کمیشن میں اپنی من پسند تقرری کر سکتے ہیں اور اس کے بعد ذیلی آرٹیکل 3D کے نفاذ کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ یہ بے تُکی سی بات ہوگی۔ 

تصور کریں کہ پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس چیف جسٹس کو منتخب کرنے کیلئے بلایا جاتا ہے اور آپ 12 میں سے صرف 8 حکومتی ارکان کے ناموں کا اعلان کرتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ کی طرف سے لکھے گئے فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ پہلے ہی یہ مسئلہ حل کر چکی ہے۔ لہٰذا، میں اپنی رائے پر قائم ہوں۔ حکومتی دلیل کی کمزوری اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کے فال بیک دلائل کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔ 

مزید یہ کہ یہی باتیں 26ویں ترمیم کی بنیاد اور روح ہیں۔ حکومت کے ماہر قانون کی رائے: اس شق اور ماضی کی مثال کو غلط پڑھا جا رہا ہے (جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ)۔ جس کیس کا حوالہ دیا جا رہا ہے اس میں پنجاب ریونیو اتھارٹی پہلی مرتبہ قائم کی جا رہی تھی۔ اس سے پہلے کبھی پنجاب ریونیو اتھارٹی کا وجود نہیں تھا۔ لہٰذا، لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا کہ اتھارٹی کو پہلے قائم کیا جانا چاہئے اور اس کے بعد ہی اگر کوئی جگہ خالی ہوگی تو ایسے ادارے (اس کیس میں پنجاب ریونیو اتھارٹی) کی کارروائی کو کسی خالی اسامی یا غیر موجودگی کی وجہ سے تحفظ حاصل ہو گا۔

تاہم، جوڈیشل کمیشن 19ویں ترمیم کے بعد سے موجود ہے۔ اسے پہلی مرتبہ آئین میں شامل نہیں کیا گیا، صرف اس کی رکنیت میں تبدیلی کی گئی ہے۔ اس صورتحال پر غور کریں کہ اگر وزیر قانون یا اٹارنی جنرل آف پاکستان کا عہدہ خالی ہو تو کیا 26ویں ترمیم سے پہلے جوڈیشل کمیشن کی کارروائی بیکار ہو جاتی؟ آپ یہ بات یاد رکھیں کہ اس صورتحال میں صرف وزیر قانون یا اٹارنی جنرل آف پاکستان کا عہدہ خالی نہیں ہوگا بلکہ جوڈیشل کمیشن میں بھی جگہ خالی ہوگی۔ 

مندرجہ بالا متن میں جو بات بتائی جا رہی ہے اس سے صرف شق (3D) بیکار بن جائے گی۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ نیا آئینی ادارہ بنایا جا رہا ہے۔ جوڈیشل کمیشن موجود تھا اور صرف اس کی رکنیت میں تبدیلی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دیکھیں تو جوڈیشل کمیشن کی تشکیل آرٹیکل 175 اے کی شق (1) کے تحت کی گئی تھی اور اس شق کو اب تک چھیڑا ہی نہیں گیا، اسے مزید اختیارات دیے گئے ہیں۔

 آرٹیکل 175A کی شق (2)، جو جوڈیشل کمیشن کی رکنیت سے متعلق ہے، میں ترمیم کی گئی ہے۔ لہٰذا، میرا کہنا یہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی موجودہ رکنیت کو تو تبدیل کیا گیا ہے لیکن کوئی نیا ادارہ قائم یا تشکیل نہیں دیا گیا۔ لہذا، شق (3D) کے تحت کسی بھی اسامی کی وجہ سے جوڈیشل کمیشن کی کارروائی کو کافی حد تک تحفظ ملتا ہے۔ سابق اٹارنی جنرل کی رائے: بیحد احترام کے ساتھ میں یہ کہوں گا کہ یہ ایک نئی متبادل شق ہے۔ اگر آئینی ترمیم کے ذریعے صرف پرانے جوڈیشل کمیشن کے حجم کو بڑھایا گیا ہے تو یہ ایک قابل فہم دلیل ہو سکتی تھی۔

 آئینی ترمیم کے ذریعے پرانی شق میں تبدیلی موجودہ جوڈیشل کمیشن کے حجم کو بڑا نہیں کرتی۔ یہ مکمل طور پر پرانے پروویژن کی جگہ لے لیتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کے تحت بنائی گئی پرانی شق اور جوڈیشل کمیشن ختم ہو چکے۔ 

یہ ایک نیا ادارہ ہے جو پرانے جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو یکجا کرتا ہے اور ایک نئے اور مکمل طور پر مختلف ادارے کے قیام کو عمل میں لاتا ہے۔ پرانے ادارے کا حجم بڑھانے کیلئے اس میں صرف ترمیم کی جاتی ہے۔ اس کا کوئی متبادل نہیں جیسا کہ 26ویں ترمیم میں بنایا گیا ہے۔

مزید خبریں :