05 نومبر ، 2024
عمران خان کو کچھ بھی کہہ لیں، اُنہوں نے پاکستانی سیاست کی کشتِ ویراں میں ایسے ایسے اچھوتے اور نادرِ روزگار عجوبے کاشت کئے ہیں، اور مسلسل کرتے چلے جا رہے ہیں، کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ’’سیاسی‘‘ کہلانے والی کوئی دوسری جماعت اُنکا تصوّر بھی نہیں کرسکتی۔
میں چاہوں تو ایسے اَن گنت عجوبوں کی فہرست مرتب کرسکتا ہوں لیکن کالم کی تنگ دامانی مانع ہے۔ سو میں فوجی تنصیبات پر منظم حملوں سے لے کر مسجد نبویؐ میں عین روضۂِ رسولؐ کے سامنے پاکستانی وفد کو مغلظات سنانے اور طفلانِ بازار کی طرح مریم اورنگ زیب کا پیچھا کرنے یا پھر لندن میں قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی پر حملہ کرنے تک کے واقعات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے پی۔ٹی۔آئی کے ایک ایسے بے مثل ہُنر کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو اُسے دوسری تمام جماعتوں سے ممتاز ومنفرد بنا دیتا ہے۔
اِس ہُنر کی معجزہ کاری یہ ہے کہ کس طرح بے مہریِٔ حالات کی رُتوں میں بھی اپنے فدائین کی بُجھتی امیدوں کو زندہ رکھنا ہے؟ کس طرح نامرادی کی بُجھی راکھ سے امید کی چنگاریاں سلگانی ہیں؟ کس طرح تندوتیز ناموافق ہواؤں کے باوجود، یَاس و نااُمیدی کے چراغوں میں، جھُوٹ اور فریب کا روغن ڈال کر اُنکی لَو کو روشن رکھنا ہے؟ خان صاحب کے فلسفۂِ سیاست سے کسب فیض کرنیوالے قریبی رفقا، پارٹی کے قائدین اور اُنکی سپاہِ سوشل میڈیا اِس فن پر کمال درجے کی دسترس حاصل کرچکے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے سادہ ومعصوم کارکن ہی نہیں، اچھے خاصے پڑھے لکھے، ہوش وخرد رکھنے والے خواتین وحضرات بھی آنکھیں بند کرکے، جھوٹ اور فریب کے اِس کھیل کو الہامی صداقتوں کا درجہ دیتے ہوئے، ایمان لے آتے ہیں۔ کسی دَشتِ بے اماں کی آتشیں وحشتوں میں بھٹکتے ہوئے بھی وہ یقین کرلیتے ہیں کہ واقعی ہمارے آس پاس ایک چمنستان کھِلا ہے جہاں خوش رنگ پروں والے پرندے نغمہ خواں ہیں اور ترنم ریز آبشاروں کی نغمگی دِل میں ہلچل پیدا کر رہی ہے۔ ایسے سبز باغ دکھانا، ہر کسی کے بس میں نہیں۔ اور ایسے پیروکار بھی ہر کسی کے نصیب میں نہیں جو ایسے والہانہ پن کے ساتھ جھوٹ اور فریب کو دل وجان سے قبول کرلیں اور بار بار کرلیں۔
دس سال قبل، جب عمران خان کا قافلۂِ انقلاب، حضرت علامہ طاہرالقادری کی سپاہِ صف شکن کے جلو میں اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پر خیمہ زن ہوا تو اُنہوں نے اپنے فدائین کو نویدِ جانفزا دی کہ ’’ایمپائر کی اُنگلی اٹھنے کو ہے۔‘‘ صبح و شام یہ اعلان کرتے ہوئے خان صاحب کے چہرے پر دھنک کے سات رنگ بکھر جاتے تھے۔
مفہوم اِس نویدِ جانفزا کا یہ تھا کہ کسی بھی لمحے، آرمی چیف، جنرل راحیل شریف، حالات کی سنگینی کو جواز بنا کر نوازشریف کو بے دخل کرنیوالے ہیں اور ہمارے لئے تختِ طاؤس بچھنے کو ہے۔ مقدر نے یاوری نہ کی۔ پہلے طاہرالقادری اٹھے۔ پھر خان صاحب خود اٹھے۔ ایمپائر کی اُنگلی نہ اٹھی۔ جاتے جاتے خان صاحب، راحیل شریف کی راہ میں بھی کانٹے بو گئے۔
عدمِ اعتماد کی تحریک کا راستہ روکنے کیلئے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اور صدر عارف علوی کے ذریعے آئینِ پاکستان پر تابڑ توڑ حملے کرائے لیکن بات نہ بنی۔ اپنے پیروکاروں سے کہا ’’الیکشن کیلئے تیار ہوجاؤ۔‘‘ اِس آرزو میں، شہبازشریف کے حلف اٹھاتے ہی، قومی اسمبلی سے اجتماعی طور پر مستعفی ہوگئے۔ ’بے ہُنری‘ کے اِن بانجھ موسموں میں جنرل باجوہ سے دو خفیہ ملاقاتیں کیِں۔
باور کرایا کہ میں نے ’میر جعفر اور میر صادق‘ آپ لوگوں کو نہیں، نواز اور شہبازکو کہا تھا۔ پھر پیشکش کی کہ میں آپ کو تاحیات آرمی چیف بنا دوں گا۔ بس پی۔ڈی۔ایم کی حکومت کو فارغ کرکے مجھے واپس لے آئیں۔ باجوہ صاحب اب اتنا بڑا معرکہ لڑنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ پھر پنجاب اور خیبرپختون خوا کی اسمبلیاں توڑ دیں۔ انتخابات پھر بھی نہ ہوئے۔ پھر ’’گُڈ ٹو سی یو‘‘ والے جسٹس بندیال میدان میں اُترے۔
خان صاحب کی آرزو میں رنگ بھرنے کیلئے الیکشن شیڈول دے دیا۔ کاتبِ تقدیر کا نوشتہ کچھ اور تھا۔ پی۔ڈی۔ایم کی حکومت اپنی معیاد پوری کرکے گھر چلی گئی اور ’نگرانوں‘ کا عہدِ نگرانی، زُلفِ یار کی طرح دراز ہوتا گیا۔ انتخابات بہرحال فروری 2024ء میں ہوئے۔ اِس سارے عمل کے دوران پی۔ٹی۔آئی کی سپاہ، فدائین کے جذبات سے کھیلتی اور کھلونے دے کے بہلاتی رہی۔
9مئی کی سازش اور دفاعی تنصیبات پر حملوں سے بھی کوئی انقلاب نہ آیا۔ پھر خبر دی گئی کہ قاضی فائز عیسیٰ کو گھر جانے دو۔ جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس بنتے ہی نقارہ بجے گا۔ انتخابات کے حوالے سے ہماری پٹیشن سماعت کے لئے لگ جائیگی۔ اور فارم 47کی بیساکھیوں پر کھڑی حکومت گھر چلی جائے گی۔ لمحۂِ موعود آیا تو قومی اُفق پر ایک اور ہی منظر نامہ رقم ہوچکا تھا۔
غالبؔ کا شعر ہے
منحصر مرنے پہ ہو جس کی اُمید
ناامیدی اُس کی دیکھا چاہیے
تقاضائے وقت کے پیش نظر، غالبؔ کی روح سے معافی مانگتے ہوئے، پہلے مصرعے میں، ’’مرنے‘‘ کی جگہ ’’ڈونلڈ‘‘ لگا کے پڑھیے تو مزا دو چند ہوجائے گا۔
منحصر ’’ڈونلڈ ‘‘پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اُس کی دیکھا چاہئے
آج امریکہ میں صدارتی انتخابات کا دِن ہے۔ اگلے ایک دو دِنوں میں فتح وشکست کا فیصلہ ہوجائے گا لیکن پی۔ٹی۔آئی کی سینئر قیادت سے لیکر نونہالانِ سوشل میڈیا تک نے یہ مژدہ جانفزا سُنا دیا ہے کہ اُدھر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں داخل ہوا، اِدھر اڈیالہ جیل کا درِ زنداں کھُلا۔ ٹرمپ حلف اٹھانے کے بعد اپنے دفتر میں آئے گا تو اُس کا اسٹاف انتخابی منشور اور ایجنڈے کے نمایاں نکات پر مشتمل دستاویز پیش کرے گا۔
ٹرمپ، یوکرین جنگ کے خاتمے، تارکینِ وطن کی بے دخلی، ٹیکس اور بیوروکریسی اصلاحات، اسرائیل کی مزید مدد اور بین الاقوامی معاملات کی صورت گری جیسے نکات پر سرسری نگاہ ڈالے گا۔ پھر غصّے سے فائل فرش پر پھینکتے ہوئے اے۔ڈی۔سی کو حکم دے گا کہ اسلام آباد بات کرائو۔ جارج ڈبلیو بُش کی طرح پتھر کے زمانے میں دھکیل دینے کی دھمکی دے گا۔
امیرالبحر کو حکم دے گا کہ میزائل اور بم برسانے والے 75 جنگی طیاروں سے لیس بحری جہاز ’’جیرالڈ فورڈ‘‘ کو بحیرہ عرب کی طرف روانہ کردو۔ ٹرمپ کے یہ اقدامات اسلام آباد میں زلزلہ سا بپا کردیں گے۔ پاکستان کو، عمران کی محبت میں دیوانگی کی حدوں کو چھوتے ٹرمپ کے غیظ وغضب سے بچانے کے لئے تمام ریاستی اداروں کے سربراہ گلدستے لئے اڈیالہ جیل کے پھاٹک پر صفیں باندھ کر کھڑے ہوجائینگے۔
کسی سے ہاتھ ملانا تو دور کی بات ہے، عمران خان اِن لوگوں کو آنکھ بھر کر دیکھیں گے بھی نہیں۔ پروٹوکول کی گاڑیاں سائرن بجاتی، فراٹے بھرتی سیدھی وزیراعظم ہاؤس آ رُکیں گی جہاں گارڈ آف آنر پیش کرنیوالا دستہ خوش آمدیدی بگل بجا کر استقبال کریگا۔ دیکھئے یہ خواب تعبیر پانے میں کتنا وقت لیتا ہے؟ اِس دوران پی۔ٹی۔آئی کی قیادت انشاء اللہ، ایک نیا پُرفریب خواب تراش لے گی اور اِن خوابوں کی عادی ہوجانے والی آنکھیں، مقدس سرمے کی طرح اِسے اپنے اندر سمیٹ لیں گی۔
ایسا ہی ایک خواب کوئی نصف صدی قبل ہماری آنکھوں میں بھی بسایا گیا تھا۔ مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھوں سے نکلا جا رہا تھا اور ہم مغربی پاکستان والے، ایڑیاں اٹھا اٹھا کر ساتویں امریکی بحری بیڑے کی راہ دیکھ رہے تھے جو ہماری مدد کے لئے خلیج بنگال کے نیلگوں پانیوں تک آن پہنچا تھا۔ ہماری آنکھیں پتھرا گئیں۔ ڈھاکہ کی فصیلوں پہ لہراتا سبزحلالی پرچم دھجیاں ہوگیا لیکن ساتویں بحری بیڑے کو جانے کون سی برمودا تکون نگل گئی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔