12 نومبر ، 2024
اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں چیئرمین کمیٹی خرم نواز اور آئی جی اسلام آباد ناصر رضوی کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی۔
آئی جی اسلام آباد ناصر رضوی نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی داخلہ کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اکتوبر 2024 کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد میں مختلف واقعات میں 31 پولیس اہلکار زخمی اور ایک شہید ہوا، گزشتہ 11 ماہ میں 348 وی وی آئی پی موومنٹس کو سکیورٹی فراہم کی گئی۔
اپنی بریفنگ میں انہوں نے بتایا کہ یکم جنوری 2024 سے 7 نومبر تک اسلام آباد میں 2773 اسٹریٹ کرائم رجسٹرڈ ہوئے، 2024 میں ڈکیتی اور گاڑی چھیننے سے متعلق ون فائیو پر 3897 کالز آئیں، راہزنی کے 1593 کیس رپورٹ ہوئے۔
اسلام آباد میں 3352 اے آئی کیمروں، 568 فائبر آپٹکس کیمروں کی مدد سے سرویلنس ہو رہی ہے۔
چیئرمین کمیٹی خرم نواز نے کہا پولیس کوئی ڈکیت پکڑتی ہے تو اسے 4-2 ماہ سے زیادہ سزا نہیں ہوتی، ڈکیت کے خلاف کوئی شریف آدمی گواہی کیلئے عدالت ہی نہیں جاتا۔
دوران اجلاس ایک موقع پر چیئرمین کمیٹی نے آئی جی اسلام آباد کو بولنے سے روک دیا، آئی جی نے کہا کہ کیا میں سوالوں کے جواب نہ دوں؟
چیئرمین کمیٹی نے کہا آپ لڑ کیوں رہے ہیں؟ آئی جی صاحب اسلام آباد کے تھانوں میں جانے سے ڈر لگتا ہے۔
آئی جی بولے سر کیا آپ کے اس بیان کو آبزرویشن سمجھا جائے؟ چیئرمین کمیٹی نے کہا بالکل اس کو آبزرویشن سمجھا جائے، کیا شہر میں آپ کے بارے میں رائے ٹھیک ہے؟ آئی جی نے کہا رائے دو جمع دو نہیں، ایک الگ سوچ کا نام ہے۔
پیپلز پارٹی کے رکن قائمہ کمیٹی عبدالقادر پٹیل نے کہا آپ کتنے ملزمان کو سزائیں دلانے میں کامیاب رہے ڈیٹا دیں۔
کمیٹی میں صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ آئی جی صاحب آپ نے جس طرح چیئرمین صاحب سے بات کی یہ افسوس ناک ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا اگر آپ نے وردی نہ پہنی ہوتی اور اس پر پاکستان کا جھنڈا نہ ہوتا تو آپ کو باہر پھینک دیتا، اس لہجے میں تو وزرا اور سیکرٹری بھی بات نہیں کرتے۔
آئی جی اسلام آباد نے کہا میرے جواب کا بالکل ایسا مطلب نہیں تھا، یقین دلاتا ہوں آپ ہمارے لیے انتہائی قابل عزت اور معتبر ہیں۔
قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس منگل تک ملتوی کردیا گیا۔