Time 29 نومبر ، 2024
پاکستان

بیجنگ نے اسموگ پر کس طرح قابو پایا؟ پاکستان اپنے بہترین دوست چین سے سیکھ سکتا ہے

بیجنگ نے اسموگ پر کس طرح قابو پایا؟ پاکستان اپنے بہترین دوست چین سے سیکھ سکتا ہے
2013 سے اب تک چین کے دارالحکومت بیجنگ کی فضائی آلودگی میں موجود پارٹیکلز کی تعداد میں 64 فیصد کمی واقع ہو چکی ہے۔ 

چین نے صرف 10 سال کے عرصے میں فضائی آلودگی پر قابو پاکر دنیا کے لیے بہترین مثال قائم کی ہے کہ اگر مضبوط ادارے اور بہترین حمکت عملی کے ساتھ بنائی گئی پالیسیز پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔

چین نے کس طرح سے فضائی آلودگی کو کنٹرول کیا؟

ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری ایک اسٹوری میں فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے چین کے اقدامات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

2013 سے اب تک چین کے دارالحکومت بیجنگ کی فضائی آلودگی میں موجود پارٹیکلز کی تعداد میں 64 فیصد کمی واقع ہو چکی ہے، مضر صحت نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 54 فیصد جبکہ سلفر ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 89 فیصد کم ہوئی۔

چین نے بہترین پالیسیز کے نتیجے میں اچھے فضائی ماحول والے دنوں (Good Air days) کی تعداد 2013 میں 13 سے بڑھائی جو کہ 2023 میں 300 تک ہو گئی۔

یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا کی پبلک پالیسی آف انوائرمنٹ کی پروفیسر اینجل سو کا کہنا ہے کہ یہ ناقابل یقین ہے، میں جنوری میں بیجنگ میں تھی اور اس یونیورسٹی کے کیمپس میں چہل قدمی کر رہی تھی جہاں میں پڑھا کرتی تھی اور اُس وقت پورے سال میں شاید ہمیں 5 دن ہی نیلا آسمان دیکھنے کو ملتا تھا لیکن اب تو تقریباً پورا سال آسمان نیلا دکھائی دیتا ہے، چین دنیا کے لیے ایک مثال بن گیا ہے کہ کس طرح سے پالیسیز تیار کی جاتی ہیں اور ماحول کو فضائی آلودگی سے پاک کرنے کے لیے ان پالیسیز پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔

چین 21 ویں صدی کے آغاز میں اس وقت سامنے آیا جب اس کے دارالحکومت بیجنگ میں اسموگ لیول دنیا میں سب سے اوپر تھا لیکن دنیا کے کسی اور شہر نے اتنی تیزی سے اسموگ پر قابو نہیں پایا جتنا چین نے پایا۔

لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چین نے یہ کس طرح کیا؟

چین نے بیجنگ میں ہائی ڈینسٹی کے انتہائی طاقتور سیٹلائٹ ریموٹ سینسنگ اور ریڈار سسٹم سے مزین تھری ڈی ائیر کوالٹی مانیٹرنگ سسٹم لگائے۔

بیجنگ نے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس کے لیے انتہائی سخت پالیسیاں متعارف کرائیں اور مختلف مراحل میں سڑکوں کو دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں سے پاک کردیا، یہی نہیں بلکہ شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو وسیع پیمانے پر پھیلا دیا۔

چین نے یہ سب اس وقت کیا جب بیجنگ معاشی طور پر ترقی کر رہا تھا، بیجنگ کی ترقی کی شرح سالانہ بنیادوں پر 6 اعشاریہ 8 فیصد تک بڑھائی۔

پروفیسر اینجل سو کا کہنا ہے کہ یہ سب صرف ایک پالیسی کی وجہ سے بیجنگ میں ممکن نہیں ہوا بلکہ متعدد سیکٹرز میں اس پالیسی کو نافذ کیا گیا تاکہ فضائی آلودگی کو کنٹرول کیا جا سکے۔

کلین ائیر ایشیا کی ڈپٹی ڈائریکٹر گلینڈا باتھن باترینا کا کہنا ہے کہ بیجنگ کی مثال سے ہم جو دیکھ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ایک واضح پالیسی اور ایکشن پلان پر عمل درآمد کیا گیا، ہم دیکھتے ہیں کہ جن شہروں نے کامیابی کے ساتھ فضائی آلودگی کو کم کیا اس کے لیے ہمیں ایک مضبوط چیمپئن چاہیے، عام طور پر وہ میئر ہو سکتا ہے یا پھر ماحولیاتی کمیٹی کا سربراہ ہو سکتا ہے جو کہ فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے بنائی گئی پالیسی پر عمل درآمد کرواتا ہے۔

ان کا کہنا تھا اس کامیابی کا راز یہ ہے کہ ابتدا ہی میں سائنسفک طریقے سے سوچا جائے کہ فضائی آلودگی کی وجوہات کیا ہیں اور ان کا حل کیا ہے، فضائی آلودگی کی وجوہات جاننے کے بعد آلودگی کا باعث بننے والی بڑی وجوہات کے حوالے سے پالیسیاں بنائی جائیں۔

رپورٹ کے مطابق بیجنگ کو اب بھی اس حوالے سے بہت کام کرنا ہے کیونکہ اس کی آلودگی ڈبلیو ایچ او کی جانب سے بنائی گئی گائیڈ لائنز سے 6 گنا زیادہ ہے۔

سائنسدانوں نے پتہ لگایا ہے کہ بیجنگ کی کچھ آلودگی 1000کلومیٹر دور سے آتی ہے، فضائی آلودگی دیگر مسائل سے زیادہ اہم اور بڑا موسمیاتی مسئلہ ہے اور صرف 2021 میں آلودگی کے باعث دنیا بھر میں 81 لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔

کلین ائیر جو کہ ورلڈ اکنامک فورم اور کلین ائیر فنڈ کے تعاون سے کام کرتی ہے نے کاروباری شخصیات کو اکٹھا کیا، فضائی آلودگی کو کم کرنے اور صحتمند تازہ ہوا کے فوائد سے مستفید ہونے کے لیے پالیسی سازوں اور مقامی حکام کے ساتھ کام کیا۔

پاکستان جو کہ چین کو اپنا آہنی دوست قرار دیتا ہے، وہ بھی چین کی طرح پالیسیاں مرتب کر کے اسموگ اور فضائی آلودگی سے نجات حاصل کر کے اپنے ملک کی عوام کو صحت مند فضا فراہم کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے صرف ایک چیز کی ضرورت ہے اور وہ ہے چین کی طرح سیاسی فوائد سے بالاتر ہو کر خالصتاً عوامی فلاح کے لیے پالیسیاں مرتب کی جائیں اور پھر ان پالیسیوں پر تمام اسٹیک ہولڈر کے تعاون سے سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔

مزید خبریں :