پاکستان

سپریم کورٹ میں آئینی ترمیم کیس کے فیصلے تک نئے ججز کی تعیناتی روکی جائے، 4 ججز کا چیف جسٹس کو خط

سپریم کورٹ میں آئینی ترمیم کیس کے فیصلے تک نئے ججز کی تعیناتی روکی جائے، 4 ججز کا چیف جسٹس کو خط
اگر موجودہ آئینی بینچ نے ہی کیس سنا تو اس پر بھی پہلے ہی عوامی اعتماد متزلزل ہے، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ کا خط— فوٹو:فائل

سپریم کورٹ میں ججز تعیناتی کے معاملے پر 4 ججز  نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھ دیا۔

جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ نے خط تحریر کیا۔

خط میں 10 فروری کے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کو مؤخر کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم جوڈیشل کمیشن کا اجلاس 10فروری کو شیڈول ہے، لاہور ہائی کورٹ میں ایک جج 15 ویں نمبر پر تھا، اسلام آباد تبادلے بعد سپریم کورٹ کےلیے اہل کیسے ہوگیا؟

 خط کے متن کے مطابق آئینی پر طور پر مشکوک تبادلے کے بعد ایک جج کیسے سپریم کورٹ کےلیے اہل ہوسکتا ہے؟ قانون واضح ہے جو براہ راست نہیں کیا جا سکتا وہ بلاواسطہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔

خط میں کہا گیا ہے کہ آئینی ترمیم کیس کے فیصلے تک نئے ججز کی تعیناتی کا عمل روکا جائے، کم از کم آئینی بینچ کی جانب سے فل کورٹ کی درخواستوں پر فیصلے کا انتظار کیا جائے اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سینیارٹی طے ہونے تک بھی جوڈیشل کمیشن اجلاس مؤخر کیا جائے۔

ججز خط کے متن کے مطابق 26ویں ترمیم کیس میں آئینی بینچ فل کورٹ کا کہہ سکتا ہے، نئے ججز آئے تو فل کورٹ کون سی ہو گی یہ تنازع بنے گا، اسلام آباد ہائیکورٹ میں تین ججز ٹرانسفر ہوئے، آئین کے مطابق نئے ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں دوبارہ حلف لازم تھا، حلف کے بغیر اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان ججز کا جج ہونا مشکوک ہوجاتا ہے، اس کے باوجود اسلام آباد ہائیکورٹ میں سینیارٹی لسٹ بدلی جا چکی۔

ججز نے خط میں مزید کہا گیا ہے کہ آئینی ترمیم کا کیس ترمیم کے نتیجے میں بننے والا آئینی بینچ سن رہا ہے، آئینی ترمیم کا مقدمہ فوری طور پر فل کورٹ میں مقرر ہونا چاہیے، پہلے بھی آئینی ترمیم کا کیس فل کورٹ میں مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تھا، آئینی بینچ میں بھی کیس کافی تاخیر سے مقرر کیا گیا اور آئینی ترمیم کیس کی آئندہ سماعت سے قبل ہی نئے ججز کی تعیناتی کےلیے جلدبازی میں اجلاس بلایا گیا۔

خط میں کہا گیا ہے کہ آئینی ترمیم کیس زیر سماعت ہے، ترمیم سے فائدہ اٹھانے والے ججز کے آنے سے عوامی اعتماد متاثر ہوگا، آئینی بینچ اگر فل کورٹ کی درخواستیں منظور کرتا ہے تو فل کورٹ تشکیل کون دے گا؟  اگر فل کورٹ بنتی ہے تو کیا اس میں ترمیم کے تحت آنے والے ججز شامل ہونگے؟  اگر نئے ججز شامل نہ ہوئے تو پھر سوال اٹھے گا کہ تشکیل کردہ بینچ فل کورٹ نہیں، اگر موجودہ آئینی بینچ نے ہی کیس سنا تو اس پر بھی پہلے ہی عوامی اعتماد متزلزل ہے۔

ججز خط کے متن کے مطابق عوام کو موجودہ حالات میں ”کورٹ پیکنگ" کا تاثر مل رہا ہے،  جاننا چاہتے ہیں کس کے ایجنڈا اور مفاد کےلیے عدالت کی تذلیل کی جا رہی ہے؟ جاننا چاہتے ہیں عدالت کو اس صورتحال میں کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ 

خط میں کہا گیا ہے کہ آئین کے مطابق ججز کا تبادلہ عارضی طور پر ہوسکتا ہے مستقل نہیں، ججز کا تبادلہ مقررہ وقت کےلیے ہی ہوسکتا ہے غیرمعینہ مدت کےلیے نہیں، مدت مقرر نہ ہونے کا مطلب ہے کہ تبادلے کا حکم کسی بھی وقت واپس لیا جا سکتا ہے، تبادلہ اسی صورت ممکن ہے جب ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد پوری ہو اور تبادلے کے بعد آئینی طور پر ججز حلف لینے کے بھی پابند ہیں، ججز کا حلف اسی ہائی کورٹ کیلئے ہوتا ہے جس کےلیے انہیں تعینات کیا گیا ہو، ہائی کورٹ ججز کا حلف تمام ہائی کورٹس کےلیے نہیں ہوسکتا۔

خط کے متن کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئینی نکات بالائے طاق رکھتے ہوئے ازخود سینیارٹی کا تعین کر لیا، لاہور ہائی کورٹ کا سینیارٹی میں 15ویں نمبر کا جج اسلام آباد میں سینیئر ترین جج بنا دیا گیا۔

مزید خبریں :