دنیا

ٹرمپ انتظامیہ پر غیر قانونی تارکین وطن کو بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے الزام کا مقدمہ دائر

ٹیکساس: ٹرمپ انتظامیہ نے بڑی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن کو گوانتاناموبے بھیج دیا جس کے خلاف عدالت میں مقدمہ بھی دائر کر دیا گیا ہے۔

امریکی سول لبرٹیز یونین (ACLU) اور کئی امیگرنٹ حقوق کے حامی گروپس نے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے تاکہ ان حراست میں لیے گئے تارکین وطن تک رسائی حاصل کی جا سکے جنہیں گوانتانامو بے بھیجا گیا ہے۔ 

سول لبرٹیز یونین کا مؤقف ہے کہ ان تارکین وطن کو وکلاء تک رسائی کے بغیر یا اپنے خاندانوں سے رابطے کے کسی بھی ذریعے کے بغیر رکھنا ان کے حبیس کورپس کے حقوق، پہلے ترمیمی حقوق، واجب عدالتی عمل کے حقوق اور امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ 

مقدمے میں گوانتانامو بے میں قیدیوں کی تنہائی پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ان کی حراست کے حوالے سے شفافیت کے فقدان پر تنقید کی گئی ہے تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ گوانتاناموبے میں کل کتنے تارکین وطن کو رکھا گیا ہے، لیکن اس میں تین وینزویلا کے شہریوں کی تفصیلات شامل ہیں جن کے اہل خانہ انہیں تلاش کرنے اور ان سے رابطہ قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ 

ایک خاندان نے ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں لیکن قانونی نمائندے بھی ان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

مریکی سول لبرٹیز یونین کا مؤقف ہے کہ یہ جان بوجھ کر کی جانے والی تنہائی گوانتاناموبے کی تاریخ سے مطابقت رکھتی ہے، جو ایک خفیہ قید خانے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ امریکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ امریکی سرزمین پر گرفتار ہونے والے تارکین وطن کو گوانتانامو بے بھیجا گیا ہے۔ 

یونین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ان قیدیوں کی تنہائی اس طریقہ کار سے بالکل مختلف ہے جو امریکی امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کی حراستی سہولیات میں مہیا کی جاتی ہے، جہاں قیدیوں کو قانونی نمائندگی اور بیرونی دنیا سے رابطے کی اجازت دی جاتی ہے۔

مقدمے میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ وکلاء کو قیدیوں تک رسائی فراہم کرے، ان کے درست مقامات کا انکشاف کرے اور کسی بھی تارک وطن کو گوانتاناموبے منتقل کرنے سے پہلے پیشگی اطلاع دے۔

‎محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی (DHS) نے اس مقدمے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ مریکی سول لبرٹیز یونین بظاہر “انتہائی خطرناک مجرم غیر ملکیوں، بشمول قاتلوں اور پرتشدد گینگ ممبران” کو امریکی شہریوں کی سلامتی پر فوقیت دے رہا ہے۔

 تاہم، امریکی نشریاتی ادارے سی بی سی کی ایک تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ حراست میں لیے گئے کئی تارکین وطن غیر متشدد اور “کم خطرہ” سمجھے جاتے ہیں، جو حکومت کے انہیں مجرم قرار دینے کے مؤقف کو چیلنج کرتا ہے۔ 

فروری کے آغاز سے، ٹرمپ انتظامیہ نے تقریباً 100 امیگرنٹ قیدیوں کو ٹیکساس کے شہر ال پاسو سے گوانتانامو بے منتقل کیا ہے۔ فوجی پروازوں کے ذریعے درجنوں تارکین وطن کو ایک وقت میں بھیجا جا رہا ہے، اور کم از کم آٹھ پروازیں کئی دنوں میں مکمل ہو چکی ہیں۔ 

امریکی حکام نے ان افراد کو “بدترین مجرم” قرار دیا ہے، جن میں ایک بدنام زمانہ وینزویلیائی گینگ کے مبینہ اراکین شامل ہیں تاہم، ProPublica اور The Texas Tribune کے صحافیوں نے تقریباً ایک درجن قیدیوں کی شناخت کی ہے، جن میں تین وینزویلیائی شامل ہیں، اور ایسے شواہد اکٹھے کیے ہیں جو حکومت کے دعوؤں کی تردید کرتے ہیں۔

‎یہ تین وینزویلیائی قیدی پہلے ال پاسو کے ایک امیگریشن حراستی مرکز میں زیر حراست تھے اور ملک بدری کے منتظر تھے کیونکہ وہ امریکا میکسیکو سرحد عبور کر کے آئے تھے۔ 

وینزویلا کی جانب سے پہلے ملک بدری کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے کئی تارکین وطن کو مہینوں تک امریکی حراستی مراکز میں رکھا گیا۔ 

امریکی عدالت کے ریکارڈ کے مطابق، ان تین میں سے دو قیدیوں کا مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا، سوائے غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے کے، جبکہ تیسرے کو حراستی مرکز میں فسادات کے دوران ایک افسر پر حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

‎ان قیدیوں کے خاندانوں نے ان کی اچانک اور غیر متوقع گوانتاناموبے منتقلی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

مزید خبریں :